اللہ میاں رحم کرے! ۔اس شہر میں آج کل ”نار موکل “ جگہ جگہ گھو م رہاہے ۔
اُس نے شہر ودیہات میں آگ کی واردات انجام دے کر دھوم مچائی ہے ۔سچائی یہی ہے کہ کسی حد تک انسان کا بھی خود ان واقعات میں عمل دخل ہوتا ہے ۔وہ خود غلطی کر کے پھر صرف روتا ہے ۔
بندوق اُٹھا کر مسند اقتدار پر برا جمان ہونے اور عیش وعشرت کا سامان اپنے لئے بہم رکھنے کیلئے اس کا غلط استعمال کیا اور نتیجتاً لگ بھگ ایک لاکھ لوگ درغور چلے گئے ۔
کسی حد تک بندوق کا قہر تھمنے لگا تو سڑک حادثات میں روزانہ درجنوں جوان اپنی جان گنوا بیٹھے کیونکہ وہ تیز رفتاری کےساتھ بائیک اور گاڑیاں چلا کر خود کو ختم کرنے لگے ،اسی میں کسی حد تک نرمی آنے لگی تو لوگ سیر وتفریح کرنے لگے ،جہاں جوان پانی کی نذر ہو گئے ۔
یہ سلسلہ رک گیا تو اب ہارٹ اٹیک ہونے لگے ۔آخر ماجرہ کیا ہے؟ ۔آگ کی وارداتیں ،ہارٹ اٹیک اور ٹریفک حادثات یا غرق آبی کے واقعات کیلئے کسی حد تک انسان خود ذمہ دار ہوتا ہے ۔
کوشش ہونے چاہیے کہ احتیا ط کریں ،ایسا کام نہ کریں جس کی اجازت قدرت نے نہ دی ہو ۔اُنکے نصب العین کےساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کیا جائے تاکہ ان آفتوں سے نجات ملے ۔