نئی دہلی، 15 دسمبر : راجیہ سبھا میں جمعرات کو پارٹی سیاست سے اوپر اٹھ کر تمام پارٹیوں کے اراکین نے گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے پر زور دیا اور اس کے لیے اپنی اپنی تجاویز بھی دیں۔
ایوان میں گلوبل وارمنگ کے سنگین اثرات اوراس کے حل کے لئے اصلاحی اقدامات پرمختصر دورانیے کی بحث کے دوران اراکین نے اپنی تجاویز دیں۔ دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) کے تروچی شیوا نے اس پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لئے 50 سال تک انتظار نہیں کر سکتے کیونکہ گلوبل وارمنگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر پہل کرنے کی ضرورت ہے۔ کوپ 2027 جیسی میٹنگ ہوتی رہیں گی، لیکن اس کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ سال 2070 سے پہلے نیٹ زیرو یعنی صفر کاربن کے اخراج کا ہدف حاصل کرنا ہوگا کیونکہ اس کی وجہ سے اس وقت روزانہ مختلف اقسام کی 200 نسلیں معدوم ہو رہی ہیں یا معدومیت کے زمرے میں آ رہی ہیں۔ عالمی سطح پر 10 ممالک کی جانب سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیس کی وجہ سے سب سے زیادہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور اس میں چین پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد امریکہ کا نمبراور تیسرے نمبر پرہندوستان ہے۔ انہوں نے تمل ناڈو حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ اسٹالن حکومت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو مؤثر طریقے سے کم کرنے کی سمت کام کر رہی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی کویتا پاٹیدار نے کہا کہ گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں تیزی سے اضافے ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے اور مرکزی حکومت اس سے نمٹنے کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلی شروع ہوگئی تھی اور اب یہ مزید خراب ہو رہی ہے۔ حکومت کا مقصد 2070 تک نیٹ زیروکا ہدف ہے اور اس پر کام جاری ہے۔ اس کے لیے قابل تجدید توانائی پر زیادہ سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ الیکٹرک گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے تاکہ بائیو فیول پر انحصار کم کیا جا سکے۔
کانگریس کی امی یاگک نے کہا کہ فی الحال بائیو فیول کی کھپت کو کم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بجلی کی کل پیداوار کا 70 فیصد کوئلہ پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ گرین ہاؤس گیس کے ساتھ ساتھ کوئلے کی راکھ ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے اور آلودگی کی سطح کو بڑھا رہی ہے۔ حکومت بائیو فیول پر انحصار کم کرے۔
ترنمول کانگریس کے جواہر سرکار نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ مغربی بنگال جیسی ساحلی ریاستیں متاثر ہو رہی ہیں کیونکہ ساحلی ریاستوں کے بہت سے علاقوں کو سمندر کی سطح میں اضافے کا خطرہ ہے۔ اس کی وجہ سے مغربی بنگال کے سندربن جیسے علاقوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔