شمالی کشمیر کی دو ڈی ڈی سی نشستوں پر دوبارہ انتخابات میں زبردست ٹھنڈ کے باوجود رائے دہندگان کی قطاریں دیکھنے کو ملیں اور تقریباً 43فیصد ووٹ ڈالے گئے ۔
لوگوں کی ان قطارو ں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وادی کے لوگ اب اپنے روز مرہ مسائل حل کرنے میں یقین رکھتے ہیں ۔
ورنہ پہلے ایام میں ڈسڑک ڈیولپمنٹ کونسل ،میونسپل کارپوریشن یا پنچایت انتخابات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی ،لوگ ہمیشہ ان انتخابات کا بائیکاٹ کرتے تھے ۔
حاجن بانڈی پورہ اور درگمولہ کپواڑہ کی ان ڈی ڈی سی نشستوں کیلئے ووٹ ڈالنے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے اپنے علاقوں کی تعمیر وترقی اور خوشحالی کیلئے پولنگ میں حصہ لیا ۔
انہوں نے کہا آج تک ہمارے ان علاقوں کو سیاستدانو ں نے درکنار کیا تھا کیونکہ ہم علیحدگی پسندوں کی کال پرزیادہ تربائیکاٹ کرتے تھے ۔
ان لوگوں کا ماننا ہے کہ جب تک اسمبلی انتخابات نہ ہوں تب تک تعمیر وترقی کی بھاگ ڈور ان ہی ڈی ڈی سی نمائندوں کے ہاتھوں میں رہے گی ۔
لہٰذا ہمیں اپنا صحیح نمائندہ چننا ہو گا جو لوگوں کا دکھ درد سمجھ سکے ۔بہرحا ل ایک بات صاف ہو چکی ہے کہ وادی کے لوگ اب جمہوری عمل پر پوری طرح یقین کرنے لگے ہیں اور آئندہ ہونے والے کسی بھی انتخاب میں لوگ بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیں گے ۔
مرکزی سرکار جموںوکشمیر میں کب اسمبلی انتخابات عمل میں لاتی ہے؟ یہ انتخابی کمیشن کے ہاتھ میں ہے لیکن ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ آنے والے انتخابات تمام سیاسی پارٹیو ں کیلئے زبردست امتحان ہو گا کیونکہ لوگ اب روایتی سیاستدانوں کی بجائے اُن ہی اُمیدواروں کو کامیاب بنانے میں پہل کرینگے جو اُن کی صحیح ترجمانی اور نمائندگی کرینگے جیسا کہ ڈی ڈی سی کے ان دو نشستوں کے انتخابات میں ردعمل سامنے آیا ہے ۔
اب مرکزی حکومت اور انتخابی کمیشن کو چاہیے کہ وہ جتنا جلد ممکن ہو سکے جموں وکشمیر میں انتخابات عمل میں لائے تاکہ عوا م کو درپیش مشکلات کا ازالہ ہوسکے ۔





