کسی بھی ملک ، ریاست یا علاقے کی تعمیر وترقی اور عوامی خوشحالی کا دارمدار اُس ملک ، ریاست یا علاقے کے اُن لوگوں پر ہوتا ہے جنہیں ہم قابل ، ذہین یا وطن پرست مانتے ہیں کیونکہ یہی لوگ وقت کے حاکموں، بادشاہوں یا انتظامی افسران کو اپنی زبان، قلم وتحریر سے مفید مشوروں سے نوازتے ہیں ،شرط یہ ہے کہ وقت کے حاکم ، بادشاہ یا انتظامی افسران ان باتوں پر غور کریں، جو وہ کہتے ہیں یا لکھتے ہیں ۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ ہر سماج میں ادیبوں ، شاعروں ، قلمکاروں ، صحافیوں اور سخنواروں کو عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ،وہ اپنی کاوشوں سے بے بسی کے عالم میں رہ رہے انسان کو با حس بناتے ہیں اور انہیں صحیح منزل کی جانب لے جانے کیلئے کام کرتے رہتے ہیں ۔
جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے گذشتہ 3دہائیوں سے بالخصوص اور7دہائیوں سے باالعموم یہاں کا یہ ذی حس طبقہ یا تو خاموش بیٹھا ہے یا پھر انہوںنے بھی ہواکا رُخ دیکھ کر اپن کشتی یہ سوچئے بغیر اُسی جانب چھوڑ دی کہ یہ غلط جگہ پر پہنچ جائیگی یا پھر صحیح جگہ پر۔۔۔ اس وادی میں ایسے درجنوں صحافی ، قلمکار ، شاعر اور ماہرین موت کے گھاٹ اُتار دیئے گئے ، جنہوںنے حق وصداقت کی شمع فروزاں رکھنے کی کوشش کی ۔
بہر حال اب دھیرے دھیرے حالات بہتری کی جانب گامزن ہورہے ہیں ، امن وترقی کی جانب انتظامیہ بڑھ رہی ہے لیکن ایک بات پھر بھی مشاہدے میں آرہی ہے کہ چند ایسے لوگ اس وادی میں موجود ہیں جو وطن پرستی کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو قابل ، ایماندار اور ماہر تجزیہ نگار یا مشورہ دان پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کے مشورے ہمیشہ غلط اور بے سود ثابت ہوتے ہیں ،ایسے درجنوں لوگ اپنے ذاتی مفادات کو آگے بڑھانے کی خاطر(من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی،تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری)کی باتیں کر رہے ہیںیعنی امیر خسرو دہلوی کہتے ہیں (میں تو بن گیا ہوں اور تو میں بن گیا ہے، میں تن ہوں اور تو جان ہے۔
پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تو اور ہے۔۔) جبکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہوتی ہے ۔
وہ سرکاری مشینری اور حکومتی ایوانوں تک اس نعرہ سے رسائی حاصل کرتے ہیں اور صرف اپنا فائدہ حاصل کرتے ہیں جبکہ وطن اور وطن کے لوگوں کیلئے اُن کی باتیں نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں ،ایسے لوگوں سے حکمرانوں اور افسران کو باخبر اور ہوشیار رہنا چاہئے تاکہ بہتر نتائج برآمد ہوسکں۔
وادی کشمیر میں ان بانوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے کیونکہ یہ علاقہ ارد گرد دشمنوں سے گھرا ہوا ہے جو کسی کو بھی اپنے جال میں بہ آسانی پھنسا سکتے ہیں اور غلط مشورہ دیکر اپنا الو سیدھا کرسکتے ہیں ۔





