اس شہر میں ہر انسان کو شک کی بیماری لگ چکی ۔سنا ہے اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ،بڑے بڑے ڈاکٹر اور حکیم بھی اس بیماری کا علاج ڈھونڈ نے میں آ ج تک ناکام ہو چکے ہیں ۔
کوئی بھی انسان اچھا کام کرے تو اسکے ہمسایہ ،دوست ،رشتہ دار سب کے سب پریشانی کے آگ میں جلنے لگتے ہیں ۔
وہ یہ راگ آلاپنا شروع کردیتے ہیں کہ اس نیک کام کیلئے مذکورہ انسان کو وسائل کہاں سے مل جاتے ہیں۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ کوئی کام نہیں ہے مشکل جب ہو گا ارادہ پکا ۔
ایک انسان کو ان باتوں کا علم بھی ہونا چاہیے اور یقین بھی کہ اس کائنات کو چلانے والا انسا ن نہیں بلکہ خدا اور بھگوان ہے ،جو ہر انسان کو کھلاتا پلاتا ہے اورہنساتا رُلاتا ہے ،جب اس ذات کی طاقت پر بھروسہ ہو اور دنیا کے انسانوں کو چھوڑ کر اس کی جانب رجوع کرے گا تو سب کچھ مل سکتا ہے ،مگر پھر بندے پر دارمدار ہے کہ وہ اس طاقت یا دولت یا پھر علم وذہانت کو لوگوں کی بھلائی اور بہتری کیلئے استعمال کر سکتا ہے یا پھر بربادی کیلئے جہلم کے کنارے راہل کو یہی خیال آتا ہے ۔





