جموں وکشمیر انتظامیہ ماحول کو صاف وپاک بنانے ،گندگی وغلاظت اور ماحولیاتی آلودگی سے عوام کو نجات دلانے میں جس طرح کے اقدامات اُٹھا رہی ہے وہ واقعی قابل داد او ر قابل ستائش ہے ۔
جھیل ڈ ل کی صحت وصفائی ہو یا پھر گل سر کی بات ہو ،ڈویژنل انتظامیہ اس حوالے سے زبردست متحرک ہے اور لوگوں نے جہاں اور جس علاقے میں ان آبی ذخائر،سرکاری کائچرائی زمین کو گذشتہ 3دہائیوں کے دوران ناجائزہ قبضہ کیا ہے، اُسکو بھی باضابطہ سرکارواپس چھین رہی ہے ۔
جموں وکشمیر انتظامیہ نے ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کیلئے پالتھین لفافوں پر بھی پابندی عائد کی تھی اور اس حوالے سے مختلف سطحوں پر کام کیا جا رہا ہے ۔
سرینگر میونسپلٹی ہو یا تحصیل سطح کی انتظامیہ وہ روز اپنے اپنے علاقوں میں دکانداروں پر چھاپہ مارکر وہاں سے پالتھین لفافے ضبط کررہی ہے اور دکانداروں سے اس حوالے سے جرمانہ بھی وصول کیا جاتا ہے، جو سراسر ناانصافی ہے کیونکہ یہ لفافے کہاں سے بن رہے ہیں، اُن فیکٹریوں کے مالکان کی کوئی جوابدہی نہیں ہے ۔
جہاں تک ملک کی مختلف کمپنیوں کا تعلق ہے وہ اپنا مال ہرگز بغیر پالتھین لفافوں کے بند نہیں کرتے ہیں ،ہلدی رام کی دالیں ہویا کسی بھی قسم کے بسکٹ ہوں، سب کے سب پالتھین کے لفافوں میں ہی پیک ہوتے ہیں ۔
ٹاٹا والوں کی چائے ہو یا بروک برانڈ ،ٹاٹا نمک ہو یا پھر مختلف قسم کے چپس ،جوس ہو یا دیگر مشروبیات ،چاکلیٹ ہو یا مختلف قسم کی مٹھائیاں ہوں سب کچھ پالتھین یا پلاسٹک کے ڈبوں میں ہی پیک ہوتا ہے ۔
پھر جموں وکشمیر انتظامیہ کی جانب سے پالتھین پر پابندی کیا معنی رکھتی ہے ۔یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیاملک کے مختلف لوگوں کیلئے مختلف قوانین ہیںیا پھر اس میں بھی سب برابر ہیں ۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پالتھین لفافوں سے نہ صرف ہماری زراعی زمین تباہ وبرباد ہو رہی ہے بلکہ آبی ذخائر یعنی ندی نالے چشمے اور مختلف صحت افزاءمقامات بھی اس پالتھین کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ چھوٹے دکانداروں کےخلاف کارروائی کرنے یا اُن سے جرمانہ وصولنے کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ باہر سے ہی ایسی چیزیں ضبط کی جائیں جن کی پیکنگ پالتھین لفافوں میں ہوتی ہے، جو شاید جموں وکشمیر کے حکام کیلئے ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ کمپنیاں ہر اعتبار سے طاقتور ہیں جن کےخلاف قانونی کارروائیاں کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔





