
شوکت ساحل
ملک کی ترقی میں نوجوانوں کا رول اہم اور کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔نوجوان کی طاقت ،ہمت ،مثبت سوچ اور تخلیقی دہانت سے ہی ملک ترقی کی بلندیوں پر پہنچتا ہے ۔
اس حقیقت سے قطعی طور انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نوجوان کسی بھی قوم اور معاشرے کا اہم ستون اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں اور ملک کی ترقی و تنزلی انہیں پر موقوف ہے۔
قوم کی امیدیں ان نوجوانوں سے وابستہ ہوتی ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج کے نوجوان ذہنی خلفشار اور مختلف قسم کے نظریاتی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہیں اور اپنے صحیح مقصد سے ہٹ چکے ہیں۔
ان کی ترجیحات بدل چکی ہیں اور مستقبل کی فکر سے بے نیاز ہوکر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نوجوان اپنی مرضی سے اس دلدل میں نہیں پھنستے بلکہ صحیح رہنمائی نہ ہونے کے سبب وہ ایسے غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں ،جہاں سے واپسی مشکل ہوجاتی ہے۔
اگرچہ بعض اوقات اس جال سے نکلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں لیکن صحیح رہنمائی نہ ہونے کے سبب گمراہی کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔
جہاں نوجوان معاشرے کی برایوں کا شکار ہیں، وہاں منشیات کی لت سب سے ذیادہ خطرناک ہے، بلکہ یوں کہیے کہ منشیات کے نقصانات زیادہ تباہ کن اور نقصان دہ ہیں۔
منشیات کا شکار افراد نہ زندوں میں شمار ہوتے ہیں اور نہ ہی مردوں میں، بس چلتی پھرتی لاشیں بن جاتے ہیں۔
جس گھر کا کوئی فرد اس لتکا شکار ہو جاتا ہے وہ پورا خاندان ایک نہ ختم ہونے والی اذیت، تکلیف اور مصیبت کا شکار ہو جاتا ہے۔
افراد کا اجتماعی ڈھانچہ معاشرہ کہلاتا ہے، اجتماعی زندگی کی درستگی وخوبی اور اس کو پرسکون وخوشگوار بنانے کے لیے کچھ کلیدی صفات کی ضرورت ہوتی ہے، خصوصا نوجوان نسل کو ان صفات سے متعارف کرانا انتہائی ضروری ہے، اگر معاشرے میں ان صفات کا خیال نہ رکھاجائے تو اجتماعی زندگی پریشانی، الجھن اور مصیبتوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے، پھر معاشرے کا بھی وہی حشر ہوتا ہے،جو تباہی کاراستہ ہے ۔
موجودہ مرکزی اور جموں وکشمیر کی انتظامیہ نے نوجوانوں کی فلاض وبہبود کے لئے کئی اسکیمیں مرتب کی ہیں ۔ان اسکیموں کو عملایا جارہا ہے اور نوجوانوں تک پہنچنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔
سوچ اور ارادہ اچھا ہو تو کامیابی ضرور ملتی ہے ۔حکومت کی سوچ اورارداہ نوجوان نسل کے مستقبل کو تابنا ک بنانا ہے ۔
تاہم بعض حکومتی پالیسیوں سے اختلاف بھی ہے ۔ایک طرف منشیات کے خلاف جنگ شروع کی گئی ہے ،لیکن دوسری جانب سے ڈیپارٹمنٹل اسٹورزپر الکوہل مشروبات کو کھلی چھوٹ دینا معاشرے کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا ہے ۔
منشیات کے قلع قمع کرنے کے لئے اس کی رسائی کو آسان بنا نے سے بہتر ہے کہ اس مشکل تر بنایا جائے ۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے جبکہ انتظامیہ کو بھی اب ’آﺅٹ آف بوکس‘ سوچنا ہوگا ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔





