پیر, نومبر ۱۰, ۲۰۲۵
7 C
Srinagar

مقابلہ کریں اور آگے بڑھیں


شوکت ساحل

ہماراعلم دو طرح کا ہوتا ہے ایک تووہ علم ہے جسے ہم تھیوری کہتے ہیں یعنی کتاب سے پڑھا ہوعلم جو محض انفرمیشن اور نظریے پر مشتمل ہوتا ہے۔

دوسرا علم ہمارا تجربہ ہوتا ہے جو پریکٹیکل ہوتا ہے یعنی وہ علم جو عمل میں آچکا ہو۔آپ نے بچپن سے پڑھا اور سنا کہ لالچ بری بلا ہے۔

آپ نے یہ جملہ محض سنا لیکن جب تک آپ کو تجربہ نہیں ہوگا آپ کو نہ تویقین آئے گا نہ اس بات کا پتا چلے گا کہ آخر لالچ ہے کیا اور یہ کس طرح بری بلا ہے۔

جب انسان خود اس تجربے سے گزرتا ہے تو پھر دنیا کا کوئی بھی شخص لاکھ کہے کہ لالچ کرو۔ تو آپ نہیں کروگے کیونکہ آپ اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب انسان خود اس تجربے سے گزرتا ہے تب اس کو یقین زیادہ ہوتا ہے پھر وہ بھٹکتا یا بہکتا نہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ ڈوبنے سے بچ جانے والے خوش نصیبوں میں شامل ہیں تو کبھی بھی کوئی بھی دوسرا شخص اگر آپ کو کہے گا بھی کہ گہرے پانی میں تیراکی کرو تو آپ نہیں کریں گے کیونکہ آپ اس حوالے سے تلخ تجربے سے گزر چکے ہیں۔اسی طرح جب تک آپ لوگ خود زندگی کے تجربات سے نہیں گزرتے آپ کو سمجھ نہیں آتی۔

ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں بزرگوں کی باتیں اور نصیحتیں بری لگتی ہیں لیکن جب ان کہی ہوئی باتوں کے نقصان سے ہم خود گزرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ نہیں یہ تو بے حد غلط ہے اور آئندہ مجھے ایسا نہیں کرنا۔

یقیناً ہمارے ارگرد ایسے افراد کی واقعی کوئی کمی نہیں جو خود کو تو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور اپنے سے چھوٹوں کو آگے نکلتا دیکھنا ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے اور وہ اس پر آپے سے باہر ہوکر ان کو کسی بھی طریقے سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

یقین نہ آئے تو فلمی یا ٹی وی ستاروں کو ہی دیکھ لیں جو اوپری طور پر ایک دوسرے کو جتنا بھی سراہیں مگر پیٹھ پیچھے ان کی زبان سے ایسے ’پھول‘ جھڑتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔حسد عربی زبان کا لفظ ہے،جسکے معنی ہیں جلن، کینہ پروری ،بدخواہی کے ہیں۔ اگر اس کے مفہوم کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی کی کامیابی اور خدادا صلاحیتوں کو برداشت نا کرنے کا نام ہے۔

اور دل میں یہ خیال آنا کے اس کو ہی یہ سب کچھ کیوں مل رہا ہے کیا مجھ میں ایسی کوئی کمی ہے جیسا کے کسی کی شہرت،دولت ، علم، کامیابی کو دیکھ کر جلنا کہ یہ سب میرے پاس کیوں نہیں ہے۔اصل میں ایمان کی کمزوری ہی انسان کو حسد کی طرف لے کر جاتی ہے، دنیاوی چیزوں کی ہوس اور لالچ انسان کو تباہ کر دیتی ہے۔

اللہ تعالی کی دی ہوئی صلاحیتوں سے جلن کرنا بے حد گمراہی کی علامت ہے۔ اس طرح کے متعد سوالات جہنم لیتے ہیں جس سے دل میں بدخوی پیدا ہو جاتی ہے اور انسان حسد کرنے لگ جاتا ہے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔آج کل معاشرے میں حسد جیسی برائی عام ہو چکی ہے۔

اس وجہ سے لوگوں میں نفرت اور تشدد کا رحجان پیدا ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بہتان اور الزام تراشی بھی بڑھ رہی ہے۔ذاتی زندگیوں کو نشانہ بنا یا جاتا ہے، کریکٹر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس طرح کے رحجان سے معاشرے میں انتہا کی جہالت پھیل چکی ہے۔

ایک دوسرے سے سبقت لیے جانے میں یہ بھول چکے ہیں کہ اخلاقی رویہ بھی کوئی چیز ہوتا ہے۔آگے بڑھنے کے لئے مقابلہ جاتی عمل کا حصہ بنیں ،محنت اور لگن سے مقابلہ کریں کامیابی ضرور ملے گی ۔مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو حسد کو ایسا جذبہ کہا گیا ہے جو نیکیوں کو کھا جاتا ہے یعنی درحقیقت یہ عمل اندر کے اچھے انسان کو مار کر ایک شیطان کو بیدا رکرتا ہے جو کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار رہتا ہے۔خود کو بدلیں ،مقابلہ کریں اور آگے بڑھیں ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img