منگل, جولائی ۱, ۲۰۲۵
24.6 C
Srinagar

آزاد کی نئی آزاد پارٹی ۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

پانچ دہائیو ں تک کانگریس کا ہاتھ تھامنے کے بعد بالآخر غلام نبی آزاد نے کانگریس کے باغی لیڈران کے ساتھ ہی جموں وکشمیر میں اپنی نئی سیاسی پارٹی کا اعلان کردیا ۔

’ڈیموکریٹک آزاد پارٹی‘کی نشانی ترنگا ہے ،لیکن اس میں زعفران اور ہرا رنگ نہیں ہے بلکہ یہ پیلے ،نیلے اور سفید رنگ کا مرکب ہے ۔

غلام نبی آزاد نے اپنی پارٹی کے جھنڈے کی تعریف بھی کی اور کہا وہ گاندھی کو ماننے والے ہیں اور گاندھی کے راستے پر چل کر اپنی سیاست کو آگے بڑھائیں گے ۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا ‘ہمارا کوئی دشمن نہیں ‘ ۔سیاست میں ویسے بھی کوئی کسی کا دشمن نہیں ہوتا ،کیوں کہ اس میں اقتدار میں آنے کے لئے سبھی آپشن کھلے رکھے جاتے ہیں ۔

غلام نبی آزاد نے نئی سیاسی پارٹی کا ایجنڈا بھی ظاہر کیا اور کہا کہ نوکریوں اور زمین کا تحفظ جموں وکشمیر کے عوام کا حق ہے جبکہ ریاستی درجہ بھی بحال ہونا چاہیے ۔

یعنی غلام نبی آزاد نے بھی اپنے تمام آپشن کھلے رکھے ہیںتاکہ منقسم منڈیٹ کے وقت اقتدار میں آنے کے لئے کسی کا بھی ہاتھ تھاماجاسکے،بلے ہی اُنہوں نے ہاتھ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ۔

بقول شاعر (ہاتھ تھامنے کی خواہش تو بہت بڑی ہے، مجھے بس اپنی انگلی تھما دو کہ میں سفر طے کر لوں۔۔۔ زمینوں کا، کہکشاو¿ں کا،مجھے ملو کہ مجھے خود سے ملنے کا اشتیاق ہے)۔

غلام نبی آزاد نے جموں میں پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ اُنکی پارٹی میں ایماندار اور وفا دار رہنماﺅں کے لئے در وازے کھلے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جو اپنی وفا داریاں بدل رہے ہیں ،کیا وہ آزاد کی آزاد پارٹی کے تئیں وفا دار ثابت ہوں ،وفا کر پائیںگے ؟اور کریں گے تو کیوں کریں گے ؟جب کہ اُنکی منزل انتخابات میں جیت اور اقتدار کی کرسی پر براجماں ہونا ہے ۔

ریاستی درجہ آج نہیں تو کل بحال ہوگا ،کیوں کہ دفعہ 370کی تنسیخ کے وقت ہی وزیر داخلہ امیت شاہ بھارتی پارلیمان میںیہ اعلان کرچکے ہیں کہ مناسب وقت پر جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بحال ہوگا ۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ مناسب وقت کون سا ہوگا ؟کیا پہلے الیکشن یوٹی درجے میں ہوں گے ،تاکہ سیاسی پارٹیوں کو انتخابی مہم چلانے کا بھرپور موقع مل سکے ،یا پھر اس مہم کی’ جان ‘نکالنے کے لئے انتخابات کے اعلان سے قبل ہی جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بحال ہوگا ۔

ابہام برقرار ہے ،افواہیں اور قیاس آرائیاں بھی ہیں،اس لئے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے ۔لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ جموں وکشمیر میں ہر لمحے ایسی خبر ملنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے جسے کسی کو کوئی توقع نہ ہی ہو۔گزشتہ چند برسوں سے یہی تو ہوتا رہا ہے ۔

دفعہ370کی تنسیخ کا فیصلہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے ۔سیاسی پارٹیوں کے باغی بھی اپنی اپنی پارٹیاں تشکیل دے رہے ہیں ،کچھ اِدھر توکچھ اُدھر ہورہے ہیں ،کوئی قومی سطح کی پارٹی میں تو کوئی علاقائی پارٹی میں شامل ہورہا ہے ۔

یعنی جموں وکشمیر اب مکمل طور پر سیاسی اکھاڑا اور سیاسی تجربہ گاہ بن چکا ہے ،جہاں سیاست سے لیکر ہر طرح کے تجربے کئے جاتے ہیں ۔اب نیا سیاسی تجربہ کتنا کامیاب ہوگا ،اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا ۔

ویسے بھی ’وقت وقت کی بات ہوتی ہے‘، یہ محاورہ ہم سب نے سنا ہوگا۔ جی ہاں! وقت کا سفاک بہاﺅہی زندگی کو نت نئی صورتوں سے دوچار کرتا ہے۔

کبھی صورت خوشگوار ہوتی ہے اور کبھی تکلیف دہ۔ ہم سب وقت کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ایسے میں بدلتی دنیا میں یہ دیکھنا انتہائی دلچسپ ہوگا کہ قومی ترنگے کے آگے آزاد کا ترنگا کتنا نکھر کر سامنے آئے گا ؟ ویسے ہم منفی سوچ کو مثبت سوچ میں بدلنے کی وکالت بھی کرتے ہیں اور اسکی ترغیب بھی دیتے ہیں ۔کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img