گھر ایک لیکن ساتھ نہیں۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

اکثر سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز یا تصاویر نظر سے گزرتی ہیں جو کہ جذبات سے بھری ہوتی ہیں۔ایسی ویڈیوز کو دیکھ کر انسان کو ایک خوشی محسوس ہوتی ہے۔

گزشتہ برس گلوکاری کے ایک پروگرام میں ایک ماں نے ہمت کی ایک نئی مثال قائم کر دی۔دراصل ہوا کچھ یوں کہ ٹی وی کے گلوکاری کے ایک پروگرام میں خاتون گانا گانے آئیں مگر نوازئیدہ بچی ماں کے بغیر ٹک ہی نہیں پا رہی تھی جس کی وجہ سے ماں نے ایک ہاتھ میں بیٹی کو سنبھالا اور دوسرے ہاتھ سے مائک لیا اور گانا شروع کر دیا۔

سنجنا اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ زندگی گزر بسر کر رہی ہیں۔ جب سنجنا کو بیٹی کولیے ہوئے آڈیشن کرتے سوشل میڈیا صارفین نے دیکھا تو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

ججز بھی سنجنا کے اس ہنر اور ہمت پر حیرت زدہ تھے۔ سنجنا اپنے شوہر کے ساتھ جوائنٹ فیملی میں رہتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ میرے گھر میں14 لوگ ہیں اور دو کمرے ہیں۔

ایک کمرے میں جیٹھ اور ان کے افراد خانہ رہتے ہیں جبکہ دوسرے کمرے میں ساس، دو دیور اور ایک نند رہتی ہیں۔ ہم کچن میں رہتے ہیں۔رات کے وقت کچن کو ہی اپنا کمرہ بنا کر وہاں سوتے ہیں۔

یہ بات سن کو ہر ایک شخص حیرت زدہ رہ گیا تھا۔ جبکہ اس سب کے باوجود سنجنا نے شوہر سے اف تک نہیں کیا ہے۔

سنجنا کہتی ہیں کہ میرے شوہر اور میرے بیچ عام چیزوں یا کسی بھی قسم کی لڑائی نہیں ہوتی ہے۔

ہمارے درمیان پیار محبت ہے جو ہر ایک مسئلے پر حاوی ہو جاتا ہے۔سنجنا کے شوہر اس حد تک سمجھدار اور احساس مند ہیں کہ وہ اہلیہ کو سپورٹ بھی کرتے ہیں جبکہ اہلیہ کی تعلیم بھی مکمل کرا رہے ہیں۔

ججز کی جانب سے جب سنجنا کی آواز کو سنا گیا تو وہ ہکا بکا رہ گئے تھے کیونکہ بیٹی کو ایک ہاتھ میں پکڑے رہنا اور دوسرے ہاتھ سے مائک پکڑ کر آڈیشن دینا آسان نہیں ہوتا ہے۔

مگر سنجنا نے ثابت کر دیا تھا کہ ہمت اور محنت سے مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔تاہم سماج میں اس طرح کی مثبت کہانیاں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ۔زیادہ گھروں میں جوائنٹ فیملی نظام ختم ہوچکا ہے ۔

گھر ہر ایک ممبر الگ دنیا میں رہتا ہے ۔کشمیری سماج میں بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔اگرچہ گھر ایک ہے لیکن ساتھ ساتھ نہیں ۔سوچوں میں ٹکراﺅ اور ایکدوسرے پر اعتماد نہ ہونا ،مسائل اور بٹوارے کی دیوار کھڑی کردیتی ہے ۔

دو یا تین سگے بھائی ہنسی خوشی ایک ساتھ رہتے تھے والدین بھی ساتھ ہوتے ہیں، بچوں کی شادیاں ہوئیں تو پھر آپسی اختلاف و انتشار کی بھی آندھیاں چلنی شروع ہوجاتی ہیں ۔بالآخر بھائیوں میں بٹوارہ ہو جاتا ہے، آنگن میں دیوار کھڑی ہوجاتی ہے۔

والدین کا ساتھ چھوڑ دیا جاتا ہے ۔لیکن اگر والدین ہی بچوں کو اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہ ہو تو معاملہ اور زیادہ پیچیدہ بن جاتا ہے ۔پھر سماج کاوہ عنصر بھی جنم لیتا ہے ،جو باتیں بنا نے میں ماہر ہوتا ہے ۔

یہ سب کچھ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم ایکساتھ ہو کر بھی اپنے گھروں کے اندر الگ الگ دنیا بسالیتے ہیں ۔ ایک ہوکر بھی الگ الگ رہنا تکلیف ،مسائل اور مشکلات پیدا کرتا ہے ۔

اگر ہم سنجنا کی کہانی سے کچھ سبق سیکھیں تو ہم مشکل حالات میں بھی ایکساتھ رہ کر خوشحال اور پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں ،تاہم اس کے لئے بدلتی دنیا میں اپنی منفی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.