کسی بھی سرکار یا سیاسی پارٹی کا مدعا ومقصد عام لوگوں کو آرام وسکو ن اور راحت پہنچانا ہوتا ہے۔
اگر یہی مقصد فوت ہو کے رہے گا تو پھر لوگ سیاست اور حکومت پر نہ بھروسہ کرینگے اور نہ ہی اُن کو بار بار اپنا ووٹ اور سپورٹ دیں گے جو کہ ایک جمہوری عمل ہے ۔
جموں وکشمیر خاصکر جب وادی کے حالات کا مشاہدہ کیا جا تاہے تو یہ باتیں سامنے آتی ہیں کہ یہاں کے عام لوگ سیاست او ر سیاستدانوں سے خفاءہو گئے ہیں۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ لوگ ووٹ سیاست پر بھروسہ کرنے سے دور چلے گئے ہیں ۔گزشتہ 3برسوں کے حالات کے بعد عوامی سطح پر یہ احساس ہونے لگاہے کہ ووٹ کا استعمال بہت زیادہ ضروری ہے اور اس ووٹ کو نہایت ہی سنجیدگی او ر سو چ وسمجھ کر ڈالنا ہے ، ایسے لوگوں کا انتخاب عمل میں لانا ہے ، جو اُن کے روزمرہ کے مسائل ومشکلات حل کر سکیں ،انہیں وہ حق دےں جو جمہوری نظام نے انہیں یعنی عوام کو دیا ۔
یہاںکی اکثر سیاسی جماعتوں سے وابستہ سیاستدان اور ورکروں وعہدیداروں نے عوام کو گمراہ کر کے بند ی بنا کے رکھ دیا ہے ۔
جھوٹے وعد ے کر کے اُن کا ہمیشہ استحصال کیا اورووٹ حاصل کر کے خود اقتدار کی کرسی پر برا جماں ہوتے تھے، پھر کوئی نظر نہیں آتا تھا بلکہ عام ووٹروں کیلئے دروازے بند رہتے تھے ۔
حالات آج بالکل بدل رہے ہیں، اب لوگوں کو سمجھ آچکی ہے کہ اُن کی ایک غلطی انہیں پورے 5برس کیلئے ترسائے گی جس سے مسائل کا حل تلاشنے کی بجائے مسائل مزید پیدا ہوں گے ۔
بہرحا ل ایک عوامی حکومت ہی عوام کے دکھ درد کو بہتر ڈھنگ سے سمجھ سکتی ہے لیکن اسکے لئے اچھے سیاستدان ،اچھے عوامی ہمدرد جو دولت کمانے کیلئے نہیں بلکہ عوامی سہولیت اور خدمت کیلئے میدان میں آچکے ہیں ،اُن ہی لوگوں کو منڈیٹ ملنا چاہیے اور اُن ہی لوگوں کو عوامی سپورٹ حاصل ہو نا چاہیے ۔
ان تمام باتوں سے اخذ ہو رہا ہے کہ آنے والے وقت میں جب بھی انتخابات ہونگے اُن میں زبردست عوامی عمل دخل رہے گا اور اب نہ ہڑتال اور نہ ہی بائیکاٹ کا اثر رہے گا بلکہ اچھے لوگوں اور اچھی تنظیموں کو سچائی کی بنیاد پر ووٹ ملے گا جو کہ جمہوریت کی جیت تصور کی جائے گی ۔





