تحریر : راناابرارخالد، سینئر صحافی، اسلام آباد پاکستان
اگست 2022 میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان, سندھ, خیبرپختونخوا, سرائیکی وسیب اور گلگت بلتستان کے بیشتر علاقے سیلاب میں ڈوب گئے, تاہمسرائیکی وسیب کے دو اضلاع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں سیلاب کی تباہی ایک بہت بڑا انسانی المیہ بن چکی ہے, کیونکہ دونوں اضلاع مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں اور کوئی پرسان حال بھی نہیں ہے۔ کیونکہ حکومت پاکستان, پنجاب کی صوبائی حکومت اور قومی میڈیا تسلیم ہی نہیں کررہے کہ سرائیکی وسیب میں سیلاب یا سیلابسے تباہی بھی ہوئی۔پاکستان کے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی فلڈ کوریج میں بھیراجن پور, ڈیرہ غازی خان میں تباہی کے مناظرکما حقہ نہیں دکھاۓ جا رہے اور نہ ہی میڈیا پر حکومت پاکستان, حکومت پنجاب اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے سرائیکی وسیب کا نام لینا گوارہ کرتے ہیں۔
ضلع راجن پور کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہرفاضل پور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور صدر پریس کلب امین انجم بتاتے ہیں کہ اگست 2022 کے دورانبلوچستان سے آنے والے سیلابی ریلوں سے ضلع راجن پور کا 90 فیصد سے زائد علاقہ پانی میں ڈوب گیا, 80 فیصد گھر سیلاب میں بہہ گئے، ہزاروں مویشی، گھروں میں موجود سامان اور پورے سال کیلئے ذخیرہ کی گئی گندم بھی پانی میں بہہ گئی، سو کے لگ بھگ انسانی اموات ہوئیں جبکہضلع راجن پور کی70 فیصد آبادی سیلاب میں بے گھر ہوئی، وہ لوگ اس وقت بھی کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہیں،ان کے پاس نہ تو کھانے کیلئے کچھ ہے اور نہ پینے کا پانی دستیاب ہے۔ نیز ضلع ڈیرہ غازیخان میں بھی سیلاب کے نقصانات اس سے ملتے جلتے ہیں۔

اس کے برعکس پنجاب ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)کی طرف سے 2 ستمبر 2022 کو جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق حالیہ سیلاب کے دوران ضلع راجن پور کے مجموعی 12318 مربع کلومیٹر ایریا کا صرف 24 فیصد سیلاب سے متاثر ہوا ہے جبکہ20 لاکھ میں سے 11.55 فیصد آبادی متاثرہ ہےاور کُل2 لاکھ 18 ہزار گھروں میںسے صرف 15 فیصد گھر مکمل یا جزوی طور پر منہدم ہوئے ہیں۔ پنجاب ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب حکومت کی طرف سے سیلاب سے متاثرہ تمام لوگوں اور مویشیوں کو نہ صرف یہ کہ فلڈ ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا جا چکا ہے بلکہ انہیں روزانہ (تین وقت کا) کھانا فراہم کیا جاتا ہے اور کوئی بھی سیلاب سے متاثرہ شخص یا خاندان کھلے آسمان تلے نہیں بیٹھا ہے۔

اگر پنجاب ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار پر بھروسہ کیا جاۓ تو واقعی ضلع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں صورتحال کنٹرول میں ہے اور تشویش کی کوئی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو حکومت پاکستان و حکومت پنجاب اور نہ ہی قومی میڈیا سرائیکی وسیب کے دو اضلاع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کو اہمیت کے لائق سمجھتا ہے۔
مگر ضلع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے زمینی حقائق یکسر مختلف ہیں, ضلع راجن پور میں صرف میرے خاندان کے 200 سے 250 افراد کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں,جن کے گھر پانی میں بہہ گئے ہیں اور آج (3 اگست 2022) تک ان کے پاس کسی قسم کا ریلیف نہیں پہنچا بلکہ ایسے ہزاروں خاندان ہیں جن تک حکومت یا این جی اوز کا کوئی ریلیف نہیں پہنچا اور وہ کھلے آسمان تلے بے یارومددگار بیٹھے ہیں کیونکہ ان کے گھر اور تمام تر مال و اسباب پانی میں بہہ گیا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ جب حکومت پاکستان, پنجاب حکومت اور قومی میڈیا سرائیکی وسیب میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کو مانے گا ہی نہیں تو ریلیف اور بحالی کے اقدامات کی امید کیونکر کی جا سکتی ہے؟
دراصل حکومت پاکستان, پنجاب حکومت اور قومی میڈیا اس معاملے میں ایک پیج پہ ہیں اور سب ملکر سرائیکی وسیب کا نام لینے سے گریزپا ہیں بلکہ جان بوجھ کر سرائیکی وسیب کو نظر انداز کررہے ہیں۔
بلکہ چند روز قبل نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں اتحادی حکومت کے مشیر براۓ امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ (جن کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہے اور ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے) انہوں نے یہاں سیلاب متاثرین کیلئے لگاۓ گئے فلڈ ریلیفکیمپ کا دورہ کیا تو اپنی تقریر میں قمر زمانکائرہ نے سرائیکی وسیب کا نام تک لینا گوارہ نہ کیا۔ بعد ازاں راقم نے جب ان سے سوال پوچھا کہ آپ نے سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر تو کیا مگر سرائیکی وسیب کا نام نہیں لیا, کیا سرائیکی وسیب میں سیلاب نہیں آیا؟سوال کا جواب دینے کی بجاۓ الٹا انہوں نے راقم کے اوپر الزام دھر دیا کہ سرائیکی وسیب کا سوال پوچھ کر میں صوبائی تعصب پھیلا رہا ہوں۔
راقم نے وزیر صاحب سے گزارش کی کہ سرائیکی وسیب کا تذکرہ نہ کرکےدراصل تعصب کا مظاہرہ تو آپ نے کیا, میں نے تو محض نشاندہی کی ہے, جسپر وزیر صاحب شدید غصے میں آگئے اور کہا کہ اسلام آباد میں کھڑے ہو کر آپ کو کیا معلوم کہ سیلاب کہاںکہاں آیا اور کہاں نہیں آیا۔ حالانکہ راقم نےبتانے کی کافی کوشش کیکہ میں خود سیلاب متاثرہ ہوں, میرا تعلق سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور سے ہے اور میرا ذاتی گھر بھی سیلاب کینظر ہو چکا ہے, اس کے علاوہ میرے بھائی, بہنوں,چچازاد, پھوپھی زاد بھائیوںو دیگر رشتہ داروں کے گھر بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں اور میرے خاندان کے دو سو سے زائد افراد (اب بھی)کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں اور مدد کے منتظر ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ہوگا تو کسے معلوم ہو گا۔ مگر وزیر صاحب کا غصہ کم نہ ہوا بلکہ انہوں نے راقم کی مذمت شروع کردی۔

اس کے علاوہ وفاقی وزرا شیری رحمان اور احسن اقبال نے بھی چند روز قبل الگ الگ پریس کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہوۓ پاکستان کے صوبہ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور خصوصی علاقہ گلگت بلتستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کا تذکرہ کیا اور ریلیف اقدامات کی تفصیل بھی بتائی، مگر دونوں نے جان بوجھ کر سرائیکی وسیب کا نام نہیں لیا جس کے دو اضلاع سیلاب سے بری طرح متاثر ہوۓ ہیں۔
درحقیقت حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب موقع پرستی کا مظاہرہ کرتےہوۓ سرائیکی وسیب کے سیلاب متاثرین کو راشن کا چھوٹا سے پیکٹ دیکر اعلان کیا جاتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرین کی مدد کی جا رہی ہے۔ بلکہ بعض وزرا اور سرکاری افسران دباؤ ڈالکر متاثرین سے اقرار کراتے ہیں کہ وہ جنوبی پنجابی ہیں سرائیکی نہیں۔ حالانکہ یہ ایکگھناؤنا اقدام ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ ملتان، خانیوال, وہاڑی, لودھراں, بہاولپور, بہاولنگر, رحیم یار خان, راجن پر, ڈیتہ غازی خان,مظفر گڑھ, لیہ, بکھر، میانوالی، خوشاب، جھنگ، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اضلاع کے لوگ سرائیکی قومیت رکھتے ہیں اور ہرگز پنجابی نہیں۔ مگر سرائیکی علاقے کے سیلاب متاثرین کو چند سو روپے مالیت کا راشن پیکٹ دیکر ان کی قومی شناخت بدلنے کی کوشش کی رہی ہے۔
میں یہاں اسلام آباد میں مقیم ہوں جبکہ میرے آبائی ضلع راجن پور کےموضع سونواہ, موضع جلال پور و دیگر مواضعات میں کھلے آسمان تلے بیٹھے میرے سینکڑوں رشتہ دار, ہمساۓ اور جاننے والے سارا سارا دن مجھے فون کرتے رہتے ہیں,کیونکہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ دارالحکومت میں ہوتے ہوۓ میں اپنا صحافتی اثر و رسوخ کا استعمال کرکے حکومت اور این جی اوز کے ذریعے ان کیلئے خشک راشن, پینے کا پانی اور خیموں کا بندوبست کراؤں گا, ان کے تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو اورزمینوں کو دوبارہ قابل کاشت بنانے کیلئے مالی امداد دلواؤں گا, مگر انہیں کیا معلوم کہ سرکاری کاغذوں کا پیٹ پہلے ہی بھرا جا چکا ہے انہیں سیلاب متاثرین میں شمار ہی نہیں کیا گیا۔ لہٰذا کوئی حکومت یا غیرسرکاری تنظیم کیوں ان کی مالی مدد کرے گی۔
بلاشبہ سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے لاکھوں سیلاب متاثرین کو خشک راشن, خیموں, کمبلوں, دوائیوں اور پینے کے پانی کی فوری ضرورت ہے, اس کے علاوہ سیلاب میں منہدم ہونے والے گھروں کی تعمیرنو اور تباہ شدہ زرعی زمینوں کو دوبارہ قابل کاشت بنانے کیلئے مالی مدد کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ڈیزل, کھاد, بیج خرید سکیں اور 15 نومبر کے بعد گندم کی نئی فصل کاشت کر سکیں۔
مگر اہم سوال یہ ہے کہ مصیبت کے وقتضلع راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے لاکھوں متاثرین کی مالی مدد کون کرے گا, کیا وہ حکومت ان کی مدد کرے گی جس نے پی ڈی ایم اے کے ریکارڈ میں ان کا اندراج ہی نہیں کیا۔
دراصل سرائیکی وسیب کے سیلاب متاثرین کی آخری امید انٹرنیشنل کمیونٹی ہے, جو بھی وادی سندھ کے ان قدیم باشندوں کی بدترین حالات میں مدد کرے گا, دراصل وہی نوح، وہی بدھا، وہی یسوع مسیح اور وہی رام ہے, مگر یہاں پاکستان میں حب الوطنی کے نام پر جہاں ایک طرف ہمسایہ ملک بھارت کی جانب سے سیلاب زدگان کیلئے مدد کی ہر پیشکش کو ٹھکرایا جاتا ہے، وہیں دوسری جانب اسی بھارت سے امداد لیکر آنے والے خالصتانی سکھوں کو ریاستی پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ خالصتانی سکھ بھارت کو توڑنا چاہتے ہیں۔
یقیناً سرائیکی وسیب کے سیلاب متاثرین جنوبی ایشیا کے لوگوں سے مالی مدد کی توقع رکھتے ہیں, مگر خدشہ ہے کہ بھارت یا دیگر ہمسایہ ممالک کی طرف سے مدد ملے گی تو وہ حکومت کو ہی ملے گی۔ وہ حکومت جو پہلے ہی سرائیکی وسیب کے سیلاب متاثرین کے ساتھ بدترین تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے, لہذا اگر کوئی بھگتکبیر سرائیکیوں کی مدد کرنا چاہتا ہو تو اس کو حکومت اور پنجابی لابی کی بجاۓ سرائیکی سیلاب متاثرین کی براہ راست مدد کرنا ہوگی۔
نوٹ:کالم نویس کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا لازمی نہیں
Email: Ranaabrarkhalid786@gmail.com





