منگل, دسمبر ۱۶, ۲۰۲۵
9.1 C
Srinagar

کل عالمی یومِ اساتذہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

میرے دس سالہ بیٹے نے آج صبح اسکول نکلنے سے قبل مجھ سے 50روپے کا تقاضا کیا ،یہ پوچھے جانے پر کہ پچاس روپے کہاں خرچ کرنے ہیں؟تو بیٹے کا جواب سن کر مجھے اپنے اسکول کے دن یاد آگئے۔

بیٹے کا کہنا تھا کہ منڈے یعنی پیر کو وولڈ ٹیچرز ڈے (عالمی یوم ِ اساتذہ ) ہے ،مجھے اپنی ٹیچر کو گفٹ (تحفہ ) دینا ہے ،ہمارے کلاس روم میں لڑکیوں نے علیحدہ جبکہ لڑکوں نے الگ گروپ بنایا ہے ۔

ہمیں کلاس روم کو بھی سجا نا ہے،اب دیکھنا ہے کہ کن کاتحفہ اچھا ہوگا ۔استاد کے تئیں بیٹے کا احترام سے بھر پورجذبہ دیدنی تھا ۔لیکن مجھے اپنے اسکول کے وہ دن بھی یاد آگئے جب میں سرکاری اسکول کی خستہ حال عمارت میں آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھا ۔

ہمارے کلاس روم کی دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں ۔بینچ اور ٹیبل کی جگہ پھٹی پرانی ٹاٹھیںبچھی ہوئی تھیں ۔

حسب ِ معمول استاد انگریزی کا مضمون پڑھانے کے لئے کلاس روم میں داخل ہوئے اور کلاس روم کی منہدم آدھی دیوار کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئے ،کیوں کہ یہاں کسی بھی وقت کوئی بھی حاد ثہ پیش آسکتا تھا۔

استاد نے آدھے گھنٹے کا لیکچر دیا اور کلاس روم سے باہر جانے سے قبل سبھی طا لب علموں سے اگلے روز 10روپے ساتھ لانے کے لئے کہا ۔سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کرنا اور والدین سے10روپے کا تقاضا کرنا ،میرے لئے استاد کا یہ حکم قیامت خیز تھا ،کیوں کہ گھر کی معاشی حالت سے میں کافی حد تک واقف تھا ،لیکن ابھی ذہنی طور اتنا شعور اپنے اندر پیدا نہیں کرسکا تھاکہ استاد نے ہم سے10روپے کا تقاضا کیوں کیا؟۔

شام جب والد صاحب گھر لوٹے ،تو کسی طرح ہمت جٹا کر میں نے والد صاحب سے کہا ’استاد نے کل10روپے ساتھ لانے کے لئے کہا ہے ۔

والد صاحب کا سوال کیوں ؟جواب معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے جس استاد ِ محترم کا حوالہ دیا ،والد صاحب اُنہیں ذاتی طور پر جانتے تھے ، اس لئے میں مطمئن تھا کہ اگر10روپے نہیں بھی ملے ،تو وہ خود والد صاحب سے مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ،میرے لئے یہ مسئلہ ہی تھا کیوں کہ میرے لئے والد صاحب سے 10روپے حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ،کیوں کہ والد صاحب کے سامنے کبھی آنکھ اٹھا کر بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔

بہر حال اگلی صبح ناشتے پربیٹھے والد صاحب نے اپنی واسکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالکر مجھے10 روپے دیئے ،خوشی کا ٹھکانا بیان نہیں کرسکتا ۔

میںاس روز اسکول امیر زادے کی طرح گیا ،کیوں کہ میرے جیب میں10روپے کانوٹ تھا۔صبح کی دعا کے لئے جب سارے طلبہ اسکول کے صحن میں جمع ہوئے،تو ہیڈ ماسٹر نے کہا جس جس بچے نے گھر سے پیسے لائے ہیں ،وہ قطار میں آکر بینچ پر رکھے گئے ایک ’بوکس‘ یعنی ڈبے میں پیسے ڈالیں ۔

اب بھی میں لاعلم تھا کہ یہ پیسے کہاں خرچ کرنے ہیں ؟اور سارے اسکول کے طالب علموں سے گھر سے پیسے لانے کے لئے کیوں کہا گیا؟اسکول میں حسب معمول آدھا دن گزر گیا اور’ لنچ‘ کے لئے گھنٹی بج گئی ۔شور کرتے ہوئے جب ہم کلاس رومز سے اسکول کے صحن میں دوڑتے ہوئے پہنچے تو ،اسکول کی اوپر ی منزل کی راہ داری یا ورانڈے پر بیٹھے ہیڈ ماسٹر نے زور آواز لگائی اور سبھی طالب علموں کو پندرہ منٹ میں لنچ ختم کرکے احاطے میں جمع ہو نے کی ہدایت دی ۔

ہیڈ ماسٹر کا حکم ٹالنا ناممکن تھا ۔اتنے میں اسکول احاطے میں سیمنٹ ،باجری،ریت اور اینٹیں دیکھ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ اسکول میں تعمیری کام ہونے جارہا ہے ۔ہیڈ ماسٹر سمیت پانچ اساتذہ نے خود مزدوری کرکے میرے کلاس روم کی اُس منہدم دیوار کو بحال کرنے کا کام شروع کیا ۔جو کسی بھی حادثے کا موجب بن سکتی تھی۔اساتذہ کو دیکھ کرکئی طالب علموں نے مدد کا ہاتھ بٹانا شروع کردیا ۔

اور اس طرح میرے کلاس روم کی وہ منہدم دیواربحال کردی گئی ۔ کل یعنی5ستمبر کو ہم عالمی یوم ِ اساتذہ منا نے جارہے ہیں ،یقینا طور پر حسب روایت مختلف تقاریب کا اہتمام ہو گا اور اساتذہ کے رول کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا ۔

میں بھی عالمی یوم ِ اساتذہ کے موقع پر اُن تمام اساتذہ کو سلام اور خراج پیش کرتا ہوں ،جنہوں نے علم کی شمع روشن کرنے کے لئے مزدور ی کی اور منہدم کلاس روم کی دیوار تعمیر کی ۔یہ تعمیری جذبہ شاید ہی آج ہمارے معاشرے میںکہیں دیکھنے کو ملے ۔

آج علم کے نور سے منور تو کیا جاتا ہے لیکن علم پر بھی اب تجارت اور کاروبار کی چھاپ پڑ چکی ہے ۔تاہم ارسطو کا قول ہے! جو بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، وہ ان سے زیادہ عزت مند اور قابل احترام ہیں، جو بچوں کو پیدا کرتے ہیں۔

یہ اس لیے کہ والدین بچوں کو صرف زندگی دیتے ہیں اور اساتذہ ان کو زندگی کا گر سکھاتے ہیں۔استاد کے احترام اور عزت پر ساری دنیا کے لوگ متفق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اقوامِ متحدہ ہر سال 5اکتوبر کو یومِ استاد مناتی ہے۔

پہلی دفعہ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسکو نے 1994کو یومِ استاد منایا، جس کا مقصد اساتذہ کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور ان کی کارکردگی کا تجزیہ کرکے ان میں بہتری لانا ہے۔

اساتذہ کا احترام ضروری ہے ،لیکن اساتذہ کو بھی اپنا مقام برقرار رکھنے اور حاصل کرنے کے لئے کار ہائے نمایاں انجام دینے ہوں گے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img