تحریر:شوکت ساحل
کہتے ہیں !زندگی امتحان لیکر سبق دیتی ہے اور استاد سبق دے کر امتحان لیتا ہے۔ہم میں سے بیشتر لوگ اس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ زندگی کا سفر ہمیں کب ،کیسے اور کن حالات میں کہاں سے کہاں لیجاتا ہے ۔
زندگی جس راستے پر چلتی رہتی ہے ،یہ ہمیں کبھی ایسے دو راہے پر لاکھڑا کرتی ہے ،جہاں انسان کو اُس راستے کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ،جسکے بارے میں اُس کو یہ علمیت نہیں ہوتی ہے ،اسکی کوئی منزل ہے یا نہیں ؟ویسے بھی ہر راستے کی ایک منزل ہوتی ہے ،وہ کہیں نہ کہیں ختم ہو جاتا ہے ،لیکن اس راستے پر انسان کو دھوپ ،چھاﺅں ،آندھی ، طوفان جیسے مراحل سے بھی گزر نا پڑتا ہے ۔
کیوں کہ زندگی کا دوسرا نام جستجو ہے اور یہ جستجو امتحان لیتی رہتی ہے ۔یہ جستجو بعض اوقات سنگین نوعیت کی آزمائش میں ڈال دیتی ہے اور آزمائش کرنے والا رب ِ کائینات ہی ہوتا ہے ،لہٰذا آزمائش میں صبر سے کام لینا ہی دانشمندی ہے ۔
یہ بھی کہتے ہیں !انسانی زندگی ہوا میں رکھے ہوئے چراغ کی مانند ہے۔ضعیف آدمی اگر چراغِ سحر ہے تو جوان آدمی چراغِ شام ہے۔
جس طرح ہوا کی زد پر رکھا ہوا چراغ ایک ایک پل کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح انسانی زندگی بھی ایک ایک پل کی محتاج ہوتی ہے۔
جس طرح رونے والے انسان کی پلکوں پر آنسو پلک جھپکنے کا محتاج ہوتا ہے، یعنی پلک جھپکی اور وہ آنسو مٹی میں جاملا، اسی طرح انسان کی زندگی بھی پانی کے بلبلے کی مانند ہے، کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بلبلہ کس وقت پھٹ جائے، صرف تھوڑی دیر کی بات ہوتی ہے۔ جس طرح پرندہ کسی شاخ پر آکر بیٹھتا ہے، تھوڑی دیر چہچہاتا ہے اور پھر اڑکر چلا جاتا ہے، ہم بھی اسی پرندے کی مانند ہیں، اس دنیا کے درخت پر ہم تھوڑی دیر کے لئے آئے ہیں اور زندگی کا جتنا وقفہ ملا ہے، اس میں ہم چہچہا رہے ہیں۔ان حالات میں جب زندگی امتحان لیتی ہے ،تو اس کا پرچہ عام نہیں ہوتا ہے اور ناہی وہ نصاب کے مطابق ہوتا ہے ۔
اس کے چبھتے سوالات کے جوابات تلاش کرنا کتنا مشکل ہے ،یہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ان حالات میں زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے کے لئے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرکے آگے بڑھتے رہیں ،تاکہ زندگی کا دشوار ترین راستہ بہ آسانی طے ہوسکے ۔ثابت قدم رہیں اور مشکل ترین حالات سے لڑتے رہیں ،منزل کا راستہ خودبخود تلاش ہوگا ۔





