ملک کی سیاست میں بالعموم اور جموں وکشمیر کی سیاست میں بلخصوص اُس وقت ایک زبردست سیاسی زلزلہ آگیا جب کانگریس کے سینئر لیڈر جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور مرکزی کابینہ میں کئی مرتبہ وزیررہ چکے، غلام نبی آزاد نے کانگریس کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا اور لگ بھگ 5دہائیوں سے جاری کانگریس پارٹی کےساتھ قائم رشتہ توڑ دیا ۔
غلام نبی آزاد کو سیاسی مبصرین ایک منجھے ہوئے ،شریف اور کام کرنے والا سیاستدان مانتے ہیں اور جو کام اُنہیں سونپ دیا جاتا ہے اُسکو وہ بخوبی انجا م دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ہیں ،غالباً یہی وجہ ہے کہ جموں وکشمیر کے یہ واحد ایسے سیاسی لیڈر ہیں ، جنہوں نے کانگریس پارٹی میں اپنا خاص مقام حاصل کیا تھا ،جو پارٹی ایک زمانے میں ملک کی واحد سیاسی جماعت تھی ،جو لوگوں کے دلوں میں جگہ کر گئی تھی ۔
دہلی سے سرینگر تک تمام سیاستدان ذہنی طور منتشر ہو گئے، جب انہوں نے غلام نبی آزا د کے استعفیٰ کی خبر سنی ،کیونکہ کہا جارہا ہے کہ غلام نبی آزاد اپنی ایک الگ پارٹی کا قیام عمل میں لائیں گے اور اس پارٹی کےساتھ پہلے ہی کانگریس کے چند سابق وزیر اور ایم ایل سی جڑ گئے ہیں ۔
دفعہ 370کے خاتمے کے بعد جس طرح وادی کشمیر کی زمینی سطح پر تبدیلی آچکی ہے اور لوگ سب سیاستدانوں سے ناراض ہیں اور کوئی بھی عام انسان سیاست کو پسند نہیں کرتا ہے، ان حالات میں بھی غلام نبی آزاد سے جموں وکشمیر کے لوگ کسی حد تک متاثر ہیں کیونکہ اُن کا تین سالہ دور حکومت جموں وکشمیر کیلئے تعمیر وترقی اور انتظامی نظم وضبط کیلئے ایک سنہری دور مانا جاتا ہے جس دور میں رشوت ستانی پر قدغن لگی تھی ،دن رات تعمیراتی کام ہو رہے تھے اور کئی اداروں اور عمارات کی سنگ بنیاد رکھی گئی ،جو واقعی ایک سنگ میل قرار دیا جاتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا غلام نبی آزاد جموں وکشمیر کی بھاگ دوڑ پھر سے سنبھال پائیں گے ؟کیا مرکزی حکومت اُن پر بھروسہ کر کے انہیں سٹیٹ ہوڑ واپس دے سکتی ہے؟۔کیا عوام اُن کو اپنا ووٹ اورسپورٹ دےں گے؟ یا پھر اُن کی پارٹی کو بھی صرف استعمال کیا جا سکتا ہے جس طرح دیگر پارٹیوں کے بارے میں عوامی حلقوں میں عام رائے بنی ہوئی ہے ،جس پارٹی بنانے کے بارے میں ابھی صرف غور کیا جا رہا ہے ۔





