عبادت بھی اشتہاری ہوگی ۔۔۔۔

عبادت بھی اشتہاری ہوگی ۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

ہر نیک عمل کے پیچھے حسنِ نیت اور اخلاص کا ہونا ضروری ہے۔ نیت اور عمل میں ایک خاص تعلق ہے اور کوئی بھی عمل حسنِ نیت کے بغیر قبولیت اور درجہ کمال کو نہیں پہنچتا۔

اگر ہم زندگی میں کسی اچھے اور نیک کام کی نیت کریں لیکن بعد ازاں کسی رکاوٹ کے باعث نہ کرنے کے باوجود بھی ہمیں اس نیک نیت کا اجر مل جائے گا۔ نیت خود ایک مطلوب عمل ہے۔

یہ دل کا عمل ہے اور دل کے عمل کا درجہ جسمانی اعضاءکے اعمال سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ نیکیوں اور درجات کے کم و بیش ہونے کی وجہ حسنِ نیت ہے۔

نیت عمل کے پیچھے ٹمٹاتے ہوئے چراغ کی مانند ہے۔ نیت کا یہ چراغ جس قدر روشنی دے گا، وہ عمل اسی قدر روشنی پا کر جگمگائے گا اور اجر و ثواب پائے گا۔

کسی شخص کی نیت ٹمٹماتے ہوئے چراغ جیسی ہے، کسی کی لالٹین جیسی، کسی کی چراغ جیسی، کسی کی بلب جیسی، کسی کی ٹیوب لائٹ جیسی، کسی کی چاند جیسی اور کسی کی نیت سورج جیسی ہے۔

الغرض جتنی روشنی اور نور کسی کی نیت میں ہے، اسی قدر اس کے عمل کا ثواب بڑھتا جاتا ہے۔ نیت کے اندر موجود خالصیت اس نیت کے نور، قوت، برکت، قبولیت اور درجے کو بڑھانے کا سبب ہے۔

جوں جوں نیت کی قوت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں عمل کا درجہ اور اجر و ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔

اس کے برعکس اگر عمل میں دکھوا پایا جائے تو وہ محض ایک عمل بن جاتا اس کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔اس لیے مقدار زیادہ ظاہر کر کے عمل کے اجر و ثواب بڑھایا نہیں جاسکتا۔

اگر خلوصِ نیت کے ساتھ کیے گئے عمل کی مقدار کم ہی کیوں نہ ہو وہ خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں زیادہ اجر کا مستحق ہوتا ہے۔

تاہم عصر حاضر میں جو بھی فلاحی کام انجام دیئے جاتے ہیں ،اُن میں حسن ِ نیت کم بلکہ دکھا وا زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔

فلاحی کاموں کے لئے بھی اشتہاری مہم چلائی جارہی ہے ۔مثلاً اگر آگ متاثرین میں کسی رضاکار تنظیم کی جانب سے امداد تقسیم کی جاتی ہے یا پھر یتیموں اور بیواﺅں کی مالی یا کسی اور طرح کی مدد کی جاتی ہے ،تو میڈیا کو طلب کرکے بڑی بڑی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں ۔بعض میڈیا نمائندوں کو کوریج دینے کے لئے پیسہ بھی خرچ کیا جاتا ہے اور اسی طرح زرد صحافت وجود میں آتی ہے ۔

اب تو حج کرنے والے بھی اپنی اشتہاری مہم از خود سوشل میڈیا پر چلاتے ہیں ۔عبادت کم اور سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز زیادہ شیئر کیے جاتے ہیں ۔

اس پر ستم ظریفی یہ کہ پھر واپسی پر اخبارات میں حج کی سعادت کرنے پر بیانات کی صورت میں خبریں بھی شائع کی جاتی ہیں ۔آج ہر کام یہاں تک کہ عبادت بھی کمر شل اور اشتہاری بنیاد پر کی جاتی ہے ۔

پھر یہ کہ اسلام میں ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو پتہ نہ چلے۔ اشتہاری مہم سے کسی ایک ذات کو فائدہ تو پہنچ سکتا ہے یا پہنچ جائے گا لیکن سماج یا معاشرہ مستفید نہیں ہوسکتا اور نہ ہوگا ۔ایسے میں خود کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.