پُر امن یاترا، انتظامیہ کو مبارک

پُر امن یاترا، انتظامیہ کو مبارک

رواں برس امرناتھ یاترا اگرچہ پُر امن طریقے سے لگ بھگ اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ تاہم خراب موسمی صورتحال کی وجہ سے اس یاترا میں کچھ مشکلات ضرور درپیش آئیں ۔امسال لگ بھگ 3برسوں کے وقفے کے بعد امرناتھ یاترا منعقد ہوئی کیونکہ کورونا وباءنے دنیا بھر میں نظام زندگی کو درہم برہم کر دیا تھا اور اس کا براہ راست اثر مختلف میلوں ،یاتراﺅں اور عرسوں پر بھی پڑا تھا، جن میں لاکھوں لوگ ہر سال شرکت کرتے تھے اور اسطرح اپنی اپنی عقیدت کا اظہار کررہے تھے ۔

جہاں تک امرناتھ یاترا کا تعلق ہے ،رواں برس حکومت نے لگ بھگ 10لاکھ یاتریوں کی آمد کا اظہار کیا تھا جبکہ صرف 4لاکھ یاتریوں نے امرناتھ گپھاجا کر شیولنگم کے درشن کئے ،اس کی سب سے بڑی وجہ خراب موسمی صورتحال تھی ،بال تل بیس کیمپ اور یہاں سے گھپا تک جانے والے راستے پر بادل پھٹنے کی وجہ سے کئی یاتری اپنی جان گنواں بیٹھے ،اسطرح یاتریوں کے آنے میں کمی ہو گئی اور جو سرکار نے ٹارگیٹ(ہدف ) رکھا تھا ا سکی نصف تعداد ہی درشن کر پائی ۔

بہرحال انتظامیہ کیلئے امرناتھ یاترا ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے ۔ایک طرف خراب موسمی صورتحال اور دوسری جانب ملی ٹنسی کے خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے انتظامیہ کو کافی زیادہ لگن ،ہوشیاری اور جرات سے کام لیناپڑتا ہے ۔

یاتریوں کی سہولیات کیلئے رہاشی انتظامات ،علاج ومعالجہ کیلئے طبی عملہ ،سیکورٹی اہلکاروں کی جموں سے سرینگر تک کی تعیناتی ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے ۔

ان تمام مسائل ومعاملات کا ایل جی انتظامیہ نے مقابلہ کیا اور یاترا کو پُر امن طریقے سے انجام دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، جس پر انتظامیہ مبارک بادی کی مستحق ہے ۔

یہاں یہ بات بھی کہنی بے حد ضروری ہے کہ اس یاترا کو بہتر ڈھنگ سے انجام دینے میں مقامی لوگوں کا بھی بہت بڑا تعاون ہوتا ہے، اُن کے بغیر یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ یاترا بہتر طریقے سے ہو سکے ۔

چاہے مزدور ،پونے والے ،ڈرائیور یا اور لوگ ہوں وہ بھی مبارک باد ی کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے بھی یاترا کے دوران بہتر ڈھنگ سے اپنا رول نبھایا ،اسطرح یہ پیغام پورے ملک میں پہنچا یا کہ کشمیری ہمیشہ سے انسان دوست اور مہمان نوازرہے ہیں اور آئندہ بھی رہےںگے ۔

مرکزی اور یوٹی انتظامیہ کو آئندہ ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ وادی میں موسمی صورتحال کبھی بھی خراب ہوتی ہے جس سے نہ صرف یاترا میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے بلکہ جانی ومالی نقصان بھی ہو رہا ہے ۔

لہٰذا ایک ایسا مستقل طریقہ کار اور منصوبہ عملانا چاہیے، جو یاترا اور یاتریوں کیلئے کا رآمد ثابت ہو سکے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.