ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
24.7 C
Srinagar

ہاتھ کو ہاتھ کی ضرورت۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

خدمت خلقِ خدا محبت الہٰی کا تقاضا،ایمان کی روح اور دنیا وآخرت کی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ ہے۔ صرف مالی اعانت ہی خدمت خلق نہیں بلکہ کسی کی کفالت کرنا،کسی کو تعلیم دینا،مفید مشورہ دینا، کوئی ہنر سکھانا،علمی سرپرستی کرنا،تعلیمی ورفاہی ادارہ قائم کرنا،کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان جیسے دوسرے امور خدمت خلق کی مختلف راہیں ہیں۔

انسان ایک سماجی مخلوق ہے، اس لئے سماج سے الگ ہٹ کرزندگی نہیں گزارسکتا۔اس کے تمام تر مشکلات کا حل سماج میں موجود ہے۔

مال ودولت کی وسعتوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے باوجود انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے، اس لئے ایک دوسرے کی محتاجی کو دور کرنے کیلئے آپسی تعاون،ہمدردی،خیر خواہی اور محبت کا جذبہ سماجی ضرورت بھی ہے۔

مذہب اسلام چونکہ ایک صالح معاشرہ اور پرامن سماج کی تشکیل کا علمبردار ہے،اس لئے مذہب اسلام نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی جو خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو،سماج کے دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کا درد اپنے دلوں میں سمیٹے،تنگ دستوں اور تہی دستوں کے مسائل کو حل کرنے کی فکر کرے،اپنے آرام کو قربان کرکے دوسروں کی راحت رسانی میں اپنا وقت صرف کریں۔

کشمیر میں ایک نہیں ،دو نہیں ،درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں رضاکار تنظیمیں ہیں ،لیکن ان میں چند ایک ہی ایسی ہی سماج کے تئیں اپنی خدمات انجام دیتی ہیں ۔کشمیر گزشتہ تین دہائیوں کے نامساعد حالات نے اہلیان کشمیر کو طرح طرح کی مشکلات سے دوچار کیا ہے ۔ہڑتالیں ،کرفیو ،بندشیں اور پابندیاں یہاں معمول ہے ۔

یہاں کی اقتصادی حالت اس قدر پریشان کن ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی ۔رہی سہی کسر عالمگیر وبا کورونا وائرس ( کووڈ ۔19) نے پوری کردی ۔یہاں ایسے کنبے ہیں ،جو زبان پر اپنی پریشا نیاں نہیں لاتے ،ایسے گھرانے تک سرکار پہنچنے یا نہ پہنچنے تاہم خد مت ِخلق کے جذبے سے سر سرشار ضرور پہنچتے ہیں اور پہنچا بھی چاہئے ۔

لیکن یہ افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ نام نہاد رضا کار تنظیمیں بھی ہیں ،جن کا رول سماج کے تئیں نا کے برابر ہے ۔بابائے قوم مہاتماگاندھی سماجی رضا کاری کے زبردست علمبردار تھے۔

ان کی تحریکوں اور مختلف ستیہ گرہ کو رضا کاروں کے ذریعہ زبردست حمایت حاصل ہوئی تھی۔ بابائے قوم نے کہا تھاکہ سماجی خدمت کا یہ پلیٹ فارم اتنا وسیع و عریض ہے، جتنی یہ دنیا۔

مہاتما گاندھی نے رضاکارانہ طورپر ہونے والے عمل کو ایک مذہبی سرگرمی کے نظریہ سے دیکھا‘ جس سے رضاکاروں کو ان کی روحانی زندگی میں مدد ملتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سماج پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان کا قول’Be To want you Change the Be‘ یعنی اپنے آپ کو اسی طرح ڈھالے جیسا کہ آپ بننا چاہتے ہیں۔ اس میں لوگوں کی کبھی زیادتی نہیں ہوتی۔ رضاکاروں اور سماج کے درمیان تعلقات سے متعلق ان کے اصل نظریہ کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔

گاندھی جی نے ذاتی اور انفرادی اصلاح سے ہونے والی تبدیلیوں پربہت زیادہ توجہ دی‘ جبکہ تمام طور پر جدید سماج میں حکومت کے بڑے پیمانے پر رول کے وہ بہت زیادہ حامی نہیں تھے۔

امید ہیں وہ رضار اپنی سوچ ضرور تبدیل کریں گے ،جنہوں نے عوام کی خدمت کے نام پر فلاحی ادارے قائم کئے ہیں ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img