وادی میں آئے روز ایسے دلدوز حادثات پیش آرہے ہیں کہ ذی حس سُن کر دھنگ ہو کے رہ جاتا ہے ،بے راہ روی ،بد اخلاقی ا ور بددیانتی تقریباً ہر انسان کا شیوہ بن چکا ہے ۔پارکوں ،باغ بغیچوں یہاں تک سڑکوں پر ایسے خرافات دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ انسان تذبذب میں پڑ جاتا ہے ،آخر ہم ولیوں کی اس وادی میں رہتے ہیں ،جہاں سے پوری دنیا کو امن سلامتی ،شرافت اور سادگی کا پیغام مل جاتا تھا یا پھر کسی مغربی ملک میں جہاں سڑکوں ،پارکوں ،ہوٹلوں اوردیگر تقریبات کے دوران کھلے عام بے راہ روی ہو رہی ہے ۔
گزشتہ روز ایک نوجوان جوڑے نے اپنے ہی گھروں میں خودکشی کی اس طرح اکثر والدین ورطہ حیرت میں پڑ گئے، آخر یہاں کیا ہو رہا ہے ۔
کچھ لوگ اس تباہی کیلئے جدید ٹیکنالوجی کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اور چند لوگ دینی واخلاقی تعلیم کی کمی سے ان کو جوڑدیتے ہیں ۔جہاںتک جدید ٹیکنالوجی کا تعلق ہے ہر کوئی سائنسدا ن یہ سوچ کر نئی ایجاد وجود میں لاتا ہے تاکہ انسان کو آرام وسہولیت مل سکے ۔
ریڈیو ،ٹیلی ویژن ،انٹرنیٹ کے بغیر موجود ہ دور میں زندگی گزارنا دشوار ہے کیونکہ دن رات اسی انٹرنیٹ کے ذریعے لوگ کام کرتے ہیں ۔
ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں، مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس اہم ترین ضرورت کا غلط استعمال کر کے سماج میں تباہی پھیلا ئیں ۔جہاں تک دینی واخلاقی تعلیم کا تعلق ہے ،ہر انسان پوری طرح واقف ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، مگر پھر بھی لوگ غلط کاموں میں ملوث ہو کر اپنے اور اپنو ں کیلئے مسائل وپریشانیاں پیدا کردیتے ہیں ۔
بزرگوں کاماننا ہے کہ تمام برائیوں کی جڑ حرام کمائی ہے، جب تک انسان حلال کما کر اس آمدنی پر گزارہ نہیں کرتا تب تک سکون وآرام نصیب ہوگا اور ایسے لوگوں سے پیدا ہونے والے بچے بھی نیک سیرت اور اعلیٰ سوچ رکھنے والے ہو سکتے ہیں ۔
جب انسان حرام کما کر اس سے اپنا پیٹ پالے گا اور اپنے بیوی بچوں کو یہ حرام کھلاتا رہے گا، تب تک ایسے دلخراش واقعات رونما ہو تے رہیں گے اور کسی کو یہ اُمید نہیں رکھنی چاہیے کہ ہمارا معاشرہ تب تک ٹھیک ہو گا جب تک اس طرح کا حرام ہمارے جسم میں جاتا رہےگا ۔
لہٰذا تمام لوگوں کو حرام کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے اور حلال پر زور دینا چاہیے، یہی ایک راستہ ہے کہ ہم موجودہ صورت حال سے نجات پاسکےں گے ۔