تحریر:شوکت ساحل
دنیا بھر کیساتھ ساتھ وادی کشمیر میں اس وقت جو سب سے بڑا سنگین معاملہ درپیش ہے ،وہ ہے انتہائی سخت قدم اٹھانا یعنی موت کو گلے لگا نا ۔
لوگ خود کشی یا موت کو گلے کیوں لگاتے ہیں؟ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کا سامنا ہم سب کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے عزیزوں میں، جاننے والوں میں یا دوستوں میں کوئی نہ کوئی خودکشی کی ”اٹیمپ“ یعنی کوشش لازمی کرتا ہے۔
ان میں سے کچھ بچ جاتے ہیں جبکہ زیادہ تر انتقال کر جاتے ہیں۔ ہر خودکشی کرنے والا اپنے بعد ایک بنیادی سوال چھوڑ جاتا ہے کہ آخر اس نے خود کشی کیوں کی؟
کیا وہ زندگی سے اس قدر تنگ اور مایوس تھا یا اس کے حالات ایسے تھے کہ اس نے موت کو ہی گلے لگا لیا لیکن یہاں ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتاہے کہ درجنوں ایسے لوگ جنہیں زندگی کی تمام رعنایاں میسر ہوتی ہیں، وہ بھی خود کشی کر جاتے ہیں تو مطلب یہ ہوا کہ زندگی کی تکالیف اور مصائب کا خود کشی سے اتنا گہرا تعلق نہیں ہے جتنا عمومی طور پرجوڑا جاتا ہے۔
زیادہ تر خودکشی کرنے والوں کے بارے میں یہی قیاس آرئیاں کی جاتی ہیں کہ اسے فلاں مصیبت تھی، فلاں پریشانی تھی یا کوئی فلاں گمبھیر مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے اس نے ’سوسائڈ اٹیمپ‘(خود کشی کی کوشش) کی حالانکہ زیادہ تر محققین نے ایسی قیاس آرائیوں کو غلط قرار دیا ہے۔
خودکشی کے موضوع پر کئی کتابیں اور ریسرچ پیپر لکھے گئے جن میں ایرک مارکوس کی کتاب(Why Suicide)، جارج ہوری کولٹ کی کتاب(The Enigma of Suicide)اور سگنے ہیمر کی کتاب (After Suicide)قابل ذکر ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے والدین نے کبھی ان معاملات میں اپنے بچوں کی تربیت کی؟ کبھی والدین نے سوچا کہ ہمارا بچہ مذکورہ کسی بھی ایک مسئلے کا شکار ہے اور ہمیں اس کے غم میں یا دکھ میں شریک ہوکر اس کا سہارا بننا چاہیے؟ بالکل نہیں، آپ آج خودکشی کرنے والے افراد بالخصوص نوجوانوں کی فہرست اٹھا کر دیکھ لیں، وہ انہیں میں سے کسی ایک مسئلے کا شکار ہوئے ہوں گے اور اس کا اختتام موت پر ہوا ہوگا۔
آپ اور میں کتنے ہی ایسے والدین کو جانتے ہیں جنہوں نے کئی اہم معاملات میں اپنے بچوں کو اکیلا چھوڑ دیا، اپنی انا، ضد اور بزنس کی خاطر بچوں کو اس قدرتنہا کر دیا کہ وہ ڈپریشن کا شکا ہو گئے۔
وادی میں اس سنگین معاملے سے نمٹنے کے لئے جہاں سماج کا رول اہم بنتا ہے ،وہیں والدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،کہ بچوں کو مشکل وقت میں تنہا نہ چھوڑیں ،بلکہ رفیق بن کر راہنما کریں ۔صحیح راہنما ئی اور تربیت سے ہی اس معاملے کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے جبکہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مہم چلانے کی ضرورت ہے ،تاکہ نوجوان نسل کی جانوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے اور اُن کا مستقبل روشن بن سکے ۔