سالانہ امرناتھ یاترا ۔۔۔۔۔۔۔۔

سالانہ امرناتھ یاترا ۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

عالمی وبا کورونا وائرس کے بحران کے بعد سالانہ امرناتھ یاترا آج یعنی جمعرات سے دوبارہ شروع ہورہی ہے ۔بدھ کی صبح ہی جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گور نر ،منوج سنہا نے جموں کے بھگوتی نگر بیس کیمپ کیمپ سے یاتریوں کے پہلے جتھے کو سرینگر کی طرف روانہ کیا ۔

ملک کے کو نے کونے سے سادھو ،سنت اور عام یاتری تقریبا 4ہزار میٹر بلندی پر واقع امرناتھ گپھا تک پہنچ کر برفیلی شیولنگم کا درشن کرتے ہیں ۔امرناتھ،ہندوو¿ں کا ایک تیرتھ مقام ہے،جو وادی کشمیر کے مشہور ومعروف سیاحتی مقام پہلگام کے بلند ترین پہاڑ پر واقع ہے۔

ایک حجرہ نما غار کے اندر شیو جی کا ایک پرانا ” برفیلی لنگ“ ہے۔ جس کے درشن کے لیے یاتری پورے ہندوستان سے آتے ہیں۔

ہندو کا عقیدہ ہے کہ یہ شیو دیوتا کی رہائش گاہ ہے ۔امرناتھ یاترا کی روایت انتہائی قدیم ہے ۔امرناتھ یاترا ،جہاں مذہبی عقیدت کا دوسرا نام ہے ،وہیں اہلیان کشمیر اور جموں وکشمیر کی اقتصادیات میں نمایا ں اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔

کون نہیں جانتا کہ جو یاتری گپھا کے درشن کیلئے آتا ہے ،وہ کشمیر میں پھر کچھ دن گزار کے ہی واپس جاتا ہے اور اس دوران وہ کشمیر کے صحت افزاءمقامات سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ کہ ہے کہ جتنی زیادہ یاتریوں کی نقل و حمل ہوگی ،اتناہی کشمیر کے سیاحتی مقامات پر بھیڑ رہے گی اور جتنا بھیڑ رہے گی ،اتنا فائدہ ہوگا کیونکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے گا۔

جہاں تک امر ناتھ یاترا اور اس کے انتظام و انصرام کا تعلق ہے تو بلا شبہ سرکاری سطح پر انتظامات کئے گئے ہیں تاہم کون یہ بھول سکتا ہے کہ یہ یاترا کشمیر میں مذہبی بھائی چارہ کی زندہ علامت رہی ہے اور ماضی قریب تک امرناتھ شرائن بورڈ کے قیام سے قبل مقامی مسلم آبادی کے عملی تعاون سے ہی یہ یاترا ممکن ہوپارہی تھی۔کشمیری عوام نے روز اول سے اس یاترا کا خیر مقدم کیاہے اور حق بات تو یہ ہے یہ گپھا دریافت کرنے والے بھی کشمیری مسلمان رہے ہیں جس کے بعد پہلگام کا وہ ملک خاندان برسوں تک اس یاترا کی نگرانی پر مامور ہوا کرتا تھا۔

اب جبکہ انتظامات کو معیاری بنانے کیلئے باضابطہ شرائن بورڈ بن چکا ہے تاہم یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ آج بھی یہ یاترا مقامی مسلم برادری کے عملی تعاون سے ہی ممکن ہوپارہی ہے اور پہلگام و بال تل کے بیس کیمپوں سے لیکر گپھا تک جس طرح کشمیر کے مسلمان یاتریوں کی خدمت میں لگے رہتے ہیں ،وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیر میں آج بھی مذہبی بھائی چارہ قائم ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود بھی مذہبی منافرت یہاں پنپ نہیں سکی۔

دراصل کشمیر کا صوفی کلچر یہاں کے ہر فرد کے رگ و پے میں ہے اور کشمیر کا شاید ہی کوئی باشندہ مذہبی منافرت پھیلانے کا مرتکب ہوسکتا ہے کیونکہ ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ دنیا کی سار ی مخلوق ایک خالق کی بنائی ہوئی ہے جہاں ہم سب کو پیار و محبت کے ساتھ مل کر رہنا ہے اور اس دنیا میں کئے گئے اعمال کی سزاو جزا دوسری دنیا میں ملنی ہے۔

یہ وہ نظریہ ہے جو کشمیر کو مذہبی بھائی چارہ کی آماجگاہ بنا چکا ہے اور آج بھی یہاں کسی طرح کا کوئی خلفشار نہیں ہے۔ یاتریوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کی خاطر وادی کشمیر کے لوگوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو وقف کیا۔ بالہ تل اور پہلگام میں یاتریوں کو پوترا گپھاتک لیجانے میں وادی کشمیر کے مسلمان ہی پیش پیش رہتے ہیں ۔

یہ کشمیر ہی ہے ،جہاں مذہبی ہم آہنگی ،رواداری اور بھائی چارہ کی زندہ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔

گوکہ یہاں کی رواداری کو یا تو سیاست کی نظر کر نے یا پھر سازش کرکے اس کو زک پہنچا نے کی کوششیں کی گئیں،تاہم یہ کوششیں کسی بھی دور میں کامیاب نہیں ہوئیں ۔اگر مذہنی عقیدے کو سیاست اور سازشی عنصر سے دور رکھا جائے ،تو وہ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے ۔بدلتی دنیا میں مثبت سوچ سے ہی ہم آہنگی اور رواداری کی روایات کو زندہ وجاوید رکھا جاسکتا ہے ۔

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.