تحریر:شوکت ساحل
ملک بھر کی طرح جموں وکشمیر کی سیاست بھی عجائب خانے کی مانند عجیب وغریب ہے ۔اس میں اصول ، نظریے ، اخلاقیات ، سماجی اقدار اور معاشرتی وثقافتی روایات کا کوئی عمل دخل نہیں اور انہیں کوئی اہمیت دی جاتی ہے ۔
ہمارے سیاستدانوں کا واحد نصب العین کسی بھی ایسی سیاسی جماعت کا ٹکٹ حاصل کر ناہوتا ہے ،جس کے ذریعے وہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکیں ۔
پورے معاشرے میں ڈھونڈنے سے بھی ایسا کوئی سیاستدان نہیں ملتا جسکی سیاست صد فیصد اصولوں اوراخلاقیات پر مبنی ہو۔
دفعہ370کی تنسیخ کے بعد جہاں جموں وکشمیر میں بہت ساری تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں ،وہیں یہاں کا سیاسی منظر نامہ بھی مکمل طور پر تبدیل ہو کر رہ گیا ۔
انتخابی موسم میں جوڑ تھوڑ کی روایت سیاسی میدان میں قدیم روایت ہے ،جو آج بھی برقرار ہے ۔
دفعہ370کی تنسیخ کے بعد جموں وکشمیر میں نہ صرف اس روایت نے نیا لبادہ اوڑھ لیا بلکہ نئی پارٹیاں بھی معرض ِ وجود میں آئیں ۔
وادی کشمیر میں کئی نئی سیاسی پارٹیاں سیاست کے میدان میں آگئیں ۔ان میں سے کچھ پرانے چہروں نے ایک چھاتے کے نیچے آکر اپنی پارٹیاں تشکیل دیںہیں ۔
این سی ،پی ڈی پی اور کانگریس جیسی پرانی سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لیڈران نے بدلاﺅ کے سانچے میں خودکو ڈھال کر نئی سیاسی پارٹی تشکیل دی اور عوام سے وعدہ کیا کہ وہ اُنکی حقیقی ترجمانی کریں گے ۔
اب یہی سیاستدان یہ کہہ رہے ہیں کہ روایتی سیاستدانوں کی سیاست دفن ہوچکی ہے ،کیوں انہوں نے عوام کے معیار ِ زندگی کو بہتر نہیں بنایا بلکہ اقتدار میں آنے کے لئے عوام کو سبز باغ دکھائے ۔
سوچ اچھی ہے ،نظریہ بہترین اور ایجنڈا بھی دل کو لبا نے کے لئے اعلیٰ ہے ۔سوال یہ ہے کہ نئی سیاسی پارٹیاں تشکیل دینے والے سیاستدان اپنے ماضی کو کیسے عوام مفادات کے پاسدار ی کے ضامن قرار دے سکتے ہیں ؟جبکہ وہ کل تک ماضی کی روایتی سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کیساتھ وابستہ تھے ۔
سوال یہ ہے کہ وہ کل صحیح تھے یا آج ہیں ؟سوال یہ بھی ہے کہ وہ جو سیاست کررہے ہیں ،وہ کیسے روایتی نہیں ہے ،وہ کیسے روایتی سیاستدانوں سے مختلف ہے ۔کیا اُن کا مقصد اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونا نہیں ہے ۔
اگر وہ واقعی عوام کا درد رکھتے ہیں ،جو کہ وہ یقینا نہیں رکھتے ہیں ،تو اُنہیں پہلے اپنی سیاست کی وضاحت کرنی چاہیے ،کہ وہ جو کل تک سیاست کرتے تھے ،وہ روایتی تھی اور آج جو وہ سیاست کرتے ہیں ،وہ روایتی نہیں ہے ۔
سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ روایتی سیاست کیا ہے؟ ۔لیکن جو بات سمجھ آرہی ہے ،وہ یہ کہ سیاست ہورہی ہے ،کیوں کہ سامنے اقتدار کی پری ہے ۔
اس لئے عصر حاضر میںلفظ سیاست، ہمارے معاشرے میں اتنا بدنام ہو چکا ہے کہ جیسے ہی سیاست کا نام لیا جاتا ہے، تو دماغ میں فورا ہی معاشرے کے دھوکے باز ، چور ، لٹیرے، رہزن ، ڈکیت، بدمعاش اور نمبر دو آدمی کا خیال آجاتا ہے۔
اس لیے کہاجاتا ہے کہ سیاست کرنا اچھے لوگوں کا کام نہیں ہے، ایک شریف النفس آدمی کا سیاست سے کیا کام ؟حالانکہ یہ منفی سوچ ہے۔
سیاستدانوں کے لئے سیاست کا میدان ہے ،اُنہیں سیاست کرنی چاہیے ،لیکن اقتدار کے لئے نہیں بلکہ عوامی مفادات کی خاطر سیاست کرنی چاہیے جبکہ نئے لیڈران کو پیدا کرنے کے لئے عوام کو بھی اپنی منفی سوچ، مثبت سوچ میں تبدیل کرنی چاہیے ۔