پنڈتوں کی ہلاکتوں کے بعد سرکار نے پنڈتوں کی حفاظت اور سہولیت کی غرض سے ایک جامع پالیسی ترتیب دی ہے جس میں یہ بھی درج ہے کہ ملازم جوڑے کو ایک ہی جگہ تعینات رکھا جائے گا ۔
سوال یہ نہیں کہ کون کہاں پر تعینات رہے گا بلکہ سوال یہ ہے کہ اُن عناصر کا کس طرح مقابلہ کیا جائے گا جو یہاں جان بوجھ کر مخصوص طبقے کو نشانہ بنا کر یہاں سیاسی اتھل پتھل اور بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں ۔جہاں سرکار اور مقامی انتظامیہ اس سلسلے پر غور کر رہی ہے وہیں یہاں کے سیاستدان ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر ایک دوسرے کو ننگا کرنے میں لگے ہیں ۔
پی سی لیڈر نے فاروق عبد اللہ کو اخوان کا شراکت دار کہہ کر خود کو سیاسی چمپئن بننا چاہا جبکہ این سی نے سجاد لون کو سابق ملی ٹینٹ کہہ کر عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ واپس لانے کی کوشش کی ہے۔
مگر مانا جائے وادی کے عوام کو سب لوگوں کی نفرت ہونے لگی ہے کیونکہ یہ سیاستدان کبھی گدھے کو بھی باپ بنالیتے ہیں اور اپنے ذاتی فائدے اور کرسی کیلئے کسی کا خون بھی کر سکتے ہیں ۔
ان حالات میں پنڈت برادری کا تحفظ کس طرح ممکن بن جائے گا یہ اہل دانش اور اہل فہم حضرات کو فکر ہے کیونکہ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ اس وطن کی خوبی ہندومسلم سکھ اتحاد میں چھپی ہے جس کو ہر صورت میں برقرار رکھنا لازمی ہے ۔