وادی میں جہاں عام لوگ خاموش ہیں اور دفعہ 370کے خاتمے کے بعد کوئی عوامی اجتماع ،علیحدگی پسند میٹنگ ،احتجاج یا تشدد کا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔
تاہم وہیں ٹارگیٹ کلنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور چن چن کر لوگوں کو مارا جا رہا ہے ۔ڈاکٹر علی جان روڑ جو کہ سرینگر کا سب سے اہم روڑ تصور کیا جا رہا ہے، جہاں سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں چلتی ہےں اور سڑک کے کنارے تجارتی ادارے بھی قائم ہیں، پھر بھی اس سڑک پر آج تک کئی ملی ٹنسی کے واقعات رونما ہوئے ۔
گزشتہ روز صبح سویرے ایک پولیس اہلکار کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ڈیوٹی پر جا رہا تھا ،اس وقت اس سڑک پر ٹریفک کا کافی زیادہ دباﺅ ہوتا ہے اور پھر بھی اس طرح کا واقعہ انجام دیا گیا ۔
ٹارگیٹ کلنگ کے ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وادی میں جگہ جگہ ملی ٹینٹ موجود ہیں اور وہ جب چاہیں جہاں چاہےںکسی کو بھی مارسکتے ہیں ۔امن وترقی اور خوشحالی تب تک ہرگز ممکن نہیں ہے جب تک نہ ایک انسان ،انسان بن کر جینے کو ترجیح دے ،ایک دوسرے سے بہتر ڈھنگ سے پیش آئے ،ایک دوسرے سے ہمدردی اور پیار محبت نہیں کر تا۔انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن اگر اُسکی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی جائے تو شاید ہی وہ برداشت کر پائے گا ۔حکمران اور انتظامی ذمہ داران ہر معاملے کو سرسری لیتے ہیں۔
انہوں نے کبھی بھی وادی کے عوام کا بھروسہ حاصل نہیں کیا ہے ۔وہ عام لوگوں میں سماجی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے میں ناکام ہوئے ۔غالباً یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی انسان قتل ہوتا ہے اور لوگ اُف تک نہیں کرپاتے ہیں ۔
بچے یتیم ہوتے ہیں اور عام لوگ تماشہ دیکھ کر راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں جس کی مثال علی جان روڑ پر پیش آئے واقعات ہیں، جہاں پر آج تک کئی افراد کو مارا گیا ہے ۔
انتظامی افسران ،پولیس حکام اور سیاستدانوں کو لوگوں کےساتھ رحمدلی سے پیش آنا چاہیے اور لوگوں کا بھروسہ حاصل کرنا چاہیے تاکہ عام لوگ اپنی حفاظت خود کر سکےں اور اپنے دوست واحباب ،ہمسائیوں اور رشتہ داروں کےساتھ ہو رہی زیادتی کی کھل کر مخالفت کر سکیں، ورنہ لوگ دم بخود ہو کر یوں ہی خاموش تماشاہی بن کر رہیں گے ۔





