زندگی کااہم اثاثہ۔۔۔۔

زندگی کااہم اثاثہ۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

آج سرفنگ کے دوران امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکااردو ‘ کی ویب سائٹ پرادب کے شہر لکھنو سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر افتخار عارف اپنی عید کی یادیں بانٹتے ہوئے دیکھا ۔

5منٹ 38سیکنڈ کے اس ویڈ یو میں افتخار عارف کہتے ہیں ’چاند رات پر نانا نئے جوتے دلانے لے جاتے تھے۔

عید پر اچھے خاصے بزرگ بھی غلط نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور ہم بھی انہیں دیکھ کر غلط پڑھ دیتے تھے۔

پھر میرے نانا مجھے قبرستان لے جاتے اور نانی مرحومہ کی قبر پر بیٹھ کر ان سے ایسے باتیں کرتے تھے کہ جیسے وہ انہیں سن رہی ہوں۔‘کیا آج بھی ایسا ہی ہو تا ہے ؟۔ایک ادیب کہتے ہیں ’رمضان المبارک بھی گزر گیااورعید بھی گزر گئی۔ابھی کل کی بات تھی ہر طرف ’ رمضان آرہا ہے۔۔۔ رمضان آگیا ہے کا شور سنائی دے رہا تھا۔

نوے سال کا بزرگ بھی یہی کہتے سنا گیا کہ ’ابھی کل کی بات ہے کہ ہم اپنے ابا کی انگلی تھامے جامع مسجد میں نماز عید ادا کرنے جایا کرتے تھے‘۔ الغرض یہ کہ جس تیز رفتاری سے رمضان اور عیدین آ اور جا رہی ہیں، انسان بھی اسی برق رفتاری سے آ اور جا رہے ہیں۔ صدیاں اور زمانے گزر جاتے ہیں مگر ہر زمانے کے مسلمان نے یہی کہا کہ ’بچپن میں والدین کے ساتھ گزری عید کا نعم البدل نہیں‘۔ انسان کی زندگی میں دو چیزیں اس کی زندگی کااہم اثاثہ ہیں ، والدین اور بچپن۔ دور حاضر کی عید ڈیجٹل ہو گئی ہے۔ پرنٹ فوٹو کی جگہ ڈیجٹل کیمروں نے لے لی ہے ، عید پوسٹ کارڈ کی جگہ ای کارڈ نے لے لی ہے،ڈاکیہ کی جگہ ای میل نے لے لی ہے۔ مگر بچپن اورعیدی کا کوئی متبادل نہیں ۔

یہ ’سیلفی‘کا دورہے۔ سائنس بھلے کتنی ترقی کر جائے عید کا تہوار قدیم ثقافت کے بغیر ادھوراہے۔ گلے ملنا ،رشتہ داروں کے ہاں جانا ،اپنی خوشیاں دوسرے کیساتھ بانٹنا اور عید دینا اور عیدی لینا ،یہی تو فلسفہ عید ہے ۔

تاہم عصر حاضر میں یہ فلسفہ بھی تبدیل ہوچکا ہے ۔عالمی وبا کورونا وائرس نے گزشتہ دو برسوں کے دوران عصر حاضر کی عید کی خوشیاں بھی ہم سے چھین لیں ۔

اب دو برسوں کے بعد جب ہم نے ایس اوپیز کے بغیر عید منائی تو پرانی یادیں بھی تازہ ہوگئیں ۔رم جم بارش میں بچوں نے اپنے والدین کے ہمراہ پارکوں کا رخ کیا اور خوب جشن منایا ۔لیکن اس عید پر بھی ڈیجٹل دنیا غالب ہی رہی ۔

بیشتر والدین اور بچے گھروں کی چار دیواری میں قید رہے اور اپنے اپنے سمارٹ فونز میں مشغول رہے۔ور یوں یہ عید بھی گزری ،جو گزشتہ دو بر سوں کے دوران عالمی وبا کورونا وائرس کی نذ ر ہوئی تھی ۔

سمارٹ فونز کا استعمال کرنا غلط نہیں لیکن منفی انداز اور بے جا استعمال سے ہم عید کی خوشیوں سے بھی محروم ہورہے ہیں ۔عید پر رشتہ داروں کے ہا ں جانے کی روایت ختم ہوچکی ہے ۔اب ویڈیو کالز یا فون کرکے یا ایک عدد وٹس ایپ مسیج کرکے ہم عید کی خوشیاں ایکدوسرے سے بانٹ رہے ہیں ۔

عصر حاضر میں ہم اُن عزیم روایتوں سے محروم ہورہے ہیں ،جو ہمارے لئے انمول اثاثہ ہیں ۔ہمیں خود کو بدلنا ہوگا ، سمارٹ فونز کی بجائے اپنے بزرگوں اور والدین کیساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ ہم اپنی میراث سے باخبر بھی رہیں اور آنے والی نئی پود کو بھی روشناس کرائیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.