وادی میں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے عام شہریوں کیلئے زبردست مسائل ومشکلات پیدا کئے ہیں ۔
عام لوگوں کا پیدل چلنا محال بن چکا ہے ۔ صبح و شام ،گلی کوچوں اور مرکزی سڑکوں پر آوارہ کتوں کے جھنڈ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔
سرینگر میونسپل کارپوریشن کی جانب سے نصب شدہ کوڈا دانوں کے ارد گرد اس قدر کتوں کی بھرمار نظر آتی ہے کہ عام انسان خوفزدہ ہو تاہے ۔یہاں سے گزرنا ناممکن ہو تا ہے ۔
روزانہ درجنوں افراد جن میں بزرگ مرد وخواتین کے علاوہ بچے شامل ہوتے ہیں ان کتوں کے ہتھے چڑجاتے ہیں ۔
سرینگر میونسپل کارپوریشن کے افسران کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران لاکھوں کتوں کی نسبندی کی ہے ۔
اگر میونسپل حکام کا اعداد وشمار صحیح مانا جائے پھر ان کتوں کی تعداد میں کمی ہونی چاہیے تھی لیکن یہ تعداد روز بروز زیادہ کیوں ہو رہی ہے ۔
عوامی حلقوں میں یہ ایک بہت بڑا سوال ابھر کر سامنے آرہا ہے ۔کئی علاقوں کے لوگ یہ شکایت بھی کررہے ہیں کہ ان آوارہ کتوں کو گاڑیوں میں سے رات کی تاریکی کے دوران مخصوص جگہوں پر اُتارا جاتا ہے ۔
اسکے پیچھے کیا حقیقت ہے لیکن ایک بات صاف وعیاں ہے کہ آوارہ کتوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور یہ عام لوگوں کیلئے خطر ہ ثابت ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز شہر سرینگر کے اہم ترین سیاحتی مرکز بلواڑروڑ پر دودرجن کے قریب بیرونی سیاحوں پر آوارہ کتوں نے دھاوا بول دیا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک واقعہ تصور کیا جا رہاہے ۔
ان آوارہ کتوں کیلئے ایک مخصوص پارک تعمیر کرنی چاہیے اور گلی کوچوں میں ایک بھی آوارہ کتا نظر نہیں آنا چاہیے خاصکر شہر سرینگر کو کتوں سے صاف شہر بنانا چاہیے کیونکہ سماٹ سیٹی میں اس طرح کے واقعا ت سیاحوں کے ساتھ پیش نہیں آنا چاہیے جیسا کہ بلواڑ سڑک پر پیش آیا ہے ۔
شہری آبادی کیلئے بھی ایک طریقہ کار وضع کرنا چاہیے کہ گھروں سے نکل رہے اضافی کھانہ وغیرہ مخصوص برتنوں میں جمع کر کے میونسپل اہلکاروں کے حوالہ کرنا چاہیے جن کے ذریعے یہ ان پارکوں میںجمع کتوں کو کھلا یا جا سکے۔
اس کیلئے ایک لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے تاکہ صحت وصفائی بھی ممکن بن سکے اور آوارہ کتوں سے نجات بھی مل سکے ۔