پہلی سیڑھی والدین ۔۔۔۔

پہلی سیڑھی والدین ۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

نو عمر بچے زبان سیکھنے کے ابتدائی مر حلے میں ہوتے ہیں، گھر میں عام طور پر جیسی زبان بولی جاتی ہے، ویسی زبان دھیرے دھیرے سیکھ لیتے ہیں۔

بچوں کے زبان کو تیزی سے سیکھنے کے اسباب مختلف ہیں، ان میں ایک فطرت کی طرف سے ودیعت کیا ہوا جذبہ، دوسرا سبب تیزی سے اخذ کرنے والا ذہن، اور تیسرا سبب ان کی جرات اور ہر ممکنہ طور پر اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کا حوصلہ اور چاہت ہوتی ہے۔

تجربہ وتحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے زبان بولنے اور استعمال کرنے میں اپنی ’زبان اور دنیا کے دوسرے معاملات کے تئیں‘محدود معلومات ہی کی روشنی میں سہی،لیکن منطقی سوچ سے بھی کسی حد تک کام لیتے ہیں۔ ایک دن ایک بچہ کہنے لگا : امی ! مجھے بہت’غصہ لگ رہا ہے’۔ میں سوچنے لگی کہ ” غصہ لگ رہا ہے‘ کیوں کہہ رہا ہے، جب کہ’غصہ آنا ‘ استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسے الفاظ کم ہی استعمال ہوتے ہیں البتہ ’بھوک لگ رہی ہے، پیاس لگ رہی ہے ‘جیسا جملہ کثرت سے بچے سنتے ہیں : شاید اسی لئے اپنی سمجھ سے اس نے ’غصہ لگنا‘ستعمال کیا، خیر ، اس کی اصلاح کر دی گئی۔کہتے ہیں کہ بچوں کی تربیت کے لیے پہلی درس گاہ ماں اور باپ ہوتے ہیں۔

اس لیے ان دونوں کا ایک بات پہ متفق ہونا ضروری ہے اور بچوں کے سامنے سب سے پہلے تو ایک دوسرے کی عزت کرنا ضروری ہے۔ ایک دوسرے کی بات سننا ضروری ہے۔

بچہ سب سے زیادہ دیکھ کر سیکھ رہا ہوتا ہے۔ لہذا پہلے تو والدین اور ساتھ رہنے والوں کو، جیسے مشترکہ خاندانی نظام ہے، اپنے ہر عمل کے ساتھ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بچہ یہی سب کچھ مستقبل میں کرے گا، جو دیکھ رہا ہے۔

خواہ آپ اس کو کتنا بھی کسی بات سے کیوں نہ روک لیں، جو اس نے دیکھا ہے، وہ کرنا ناگزیر فطرت ہے۔ یوں بھی بچے کو، جس بات سے مسلسل روکا جا رہا ہوتا ہے، وہ اس کے لیے تجسس بن جاتی ہے اور وہ اپنے تجسس کی تسکین یا کھوج کے لیے اس عمل کو دہراتا ہے۔

بچوں کو خوف یا لالچ دے کر کام کرنے کی طرف آمادہ مت کریں ورنہ وہ ساری عمر خوف یا لالچ کے زیر اثر زندگی گزار دے گا، مزید دشواریوں کا شکار ہو جائے گا اور آپ کو بھی اس کا حصہ بنا لے گا۔ اس کو جو سیکھانا ہے، جو تربیت کرنی ہے، وہ یہ ہے کہ اسے جو کچھ کرنا ہے بحیثیت انسان کرنا ہی ہے اور انسان بھلائی کا کام کرتا ہے۔

اس پر اپنے کسی قسم کے نظریات مسلط مت کریں، اس کا زمانہ دوسرا ہے اور آپ کا دوسرا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر زمانہ اپنی تہذیب ساتھ لاتا ہے اور ہمیں اسی کے مطابق تعلیم بھی دینی ہے اور تربیت بھی۔

تعلیم نے تو وقت کے ساتھ ساتھ کسی حد تک اپنے معیارات بدل لیے ہیں مگر تربیت ابھی ماضی کی پرستش میں مشغول ہے۔تعلیم اور تربیت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔

بچے کو اسکول اور ٹیوشن بھیج کر ہم اس کے تربیتی تقاضے پورے نہیں کر رہے بلکہ علمی تقاضے پورے کر رہے ہیں۔علمی تقاضوں کی پہلی سیڑھی والدین، خاندان، دوست احباب، بچوں کے دوست، ان کے خاندان کے رویے اور اعمال ہیں، جو بچہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ کھیل کود، ملنے ملانے اور کھانے پینے کے دوران سیکھ رہا ہوتا ہے۔

بچوں کے سامنے مثبت سوچ کیساتھ اُن الفاظ کا استعمال اور عمل کا مظاہرہ کریں ،جو اُنہیں سماج کے لئے کامیاب نسل بنا سکے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.