تحریر:شوکت ساحل
وادی کشمیر میں چھوٹی عید کی بڑی خوشیاں گزشتہ تین برسوں سے ماند پڑی ہوئی ہیں ،پہلے سیکیورٹی لاک ڈاﺅن اور پھر کورونا وائرس لاک ڈاﺅن نے عید کی رونقیں ہی ختم کردی تھیں ۔
اب تین برسوں کے بعد اہلیان کشمیر چھوٹی عید کی بڑی خوشیاں سمیٹنے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھے ،تاہم اُف یہ مہنگائی کہ عام آدمی سوچتا ہی رہتا ہے ۔عید الفطر کی آمد قریب آتے ہی مہنگائی کی نئی لہر نے سفید پو ش اور غریب شہریوں سے عید کی خوشیاں چھین لی ہیں۔ریڈی میڈ گارمنٹس،جوتوں ،کپڑوں سمیت دیگر اشیاءکی قیمتوں میں نمایاں اضافہ پیدا ہو گیا ہے۔
مہنگائی کی شرح میں اضافہ سے خریداری کا کام ہی متاثر ہو رہا ہے اور اشیاءکی سیل گر رہی ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی عید الفطر کے موقعہ پر مہنگائی کی شرح میں نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔رمضان المبارک کے آ غاز سے شروع ہو نے والا مہنگائی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
سبزیوں کی قیمتیں ساتویں آسمان پر ہیں ۔ شہری حلقوں نے عید الفطر کی آمد قریب آنے پر مہنگائی کی نئی لہر پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
صارفین کا کہنا ہے کہ حکومتی اداروں کی غفلت اور لا پر واہی سے ہر سال مہنگائی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔مہنگائی نے سفید پو ش اور غریب شہریوں سے عید کی خوشیاں چھین لی ہیں۔عید کے موقعہ پر معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پورا کرنا بھی دشوار ہو جاتا ہے،شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی کے لئے اقدامات عمل میں لائے جائیںتاکہ اکثریتی عوام عید کی خوشیاں منا سکے۔
ویسے بھی کونسی چیز ہے جس کے نرخ نارمل سطح پر ہیں؟انتظامیہ نے سب کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ غریب کا تو ذکر ہی کیا ،مہنگائی کی مار نے ہر ایک کو بری طرح سے متاثر کیا ۔
غریبوں کاتو جینا ہی دوبھر ہوگیا ہے اور پھر اشیاءصرف کی خود ساختہ قیمتوں نے تو متوسط طبقہ کی چیخیں نکال دی ہیں۔
باعث حیرت ہے کہ یہی طبقہ تاجران چند افراد کو راشن دے کر خود کو غریب پرور ثابت کرتا جاتا ہے مگر کم آمدنی والا خریداروں کو اپنے مال پر چندروپوں کی رعایت دینے پرراضی نہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟اشیاءکی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ کرکے ہر جگہ فروخت کی جارہی ہے اور کوئی نہیں جو منافع خوروں پر ہاتھ ڈال سکے۔
انتظامیہ اور حکومتی نمائندوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔اشیاءفروخت کنندگان کا عالم یہ ہے ان کے ترازو اور باٹ تک درست نہیں ہے۔ وہ خریداروں کو کھلے عام چونا لگا رہے ہیں۔ان سب چیزوں پر”چیک اینڈ بیلنس“ رکھنے والے اداروں کے افسران واہل کار اپنے دفاتر سے نکلنے کی زحمت نہیں کرتے۔وہ اپنے دفاتر کے ٹھنڈے اوریخ کمروں میں بیٹھے اپنا حصہ بقدر بھتہ وصول کرکے سب اچھاہے کی ٹیبل رپوٹیں بنانے کے ماہر ہوچکے ہیں۔
گوشت 640روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے ،مرغ کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں اور میوہ جات قوت خرید سے باہر ہیں ۔عید کے مواقعہ پر قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کے لئے روایت سے ہٹ کر سوچنا ہوگا ۔