رمضان ، لوڈ شیڈنگ اور حکومتی دعوے

رمضان ، لوڈ شیڈنگ اور حکومتی دعوے

تحریر:شوکت ساحل

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اپنے ساتھ بیش بہا رحمتیں اور برکیتں لے کر آتا ہے۔ تمام مسلمان اس ماہ کی فضیلتوں سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہونے کی تگ و دو میں مامور ہو جاتے ہیں۔

امت مسلمہ کے لیے یہ ماہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔موسم کی بدلتی کروٹ اور عالمی وبا سے پیدا شدہ معاشی بحران کے بیچ جموں و کشمیرمیں بسنے والے مسلمانوں کی آزمائش میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مزید اضافہ متوقع ہے، لیکن حکومت وقت نے بالخصوص سحر و افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ کی سخت ممانعت کی ہے جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ لیفٹیننٹ گو رنر منوج سنہا نے محکمہ برقیات کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

خدا سے دعا ہے کہ حکومت اپنے نیک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے اور عوام رمضان کی سختیوں کے باوجود اس کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکے۔ماہ رمضان میں طویل غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ خاص طور پر (سحر وافطار کے اوقات )نے کشمیری عوام کو شدید مشکلات سے دو چار کر رکھا ہے۔

مختلف اضلاع میں آٹھ سے 10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔گرمائی دارالحکومت سرینگر میںبھی حال کافی برا ہے ۔

اب تو لوگ کہنے لگے کہ میٹرڈ اور نان میٹرڈ یعنی(میٹر اوربغیر میٹر ) علاقوں کا حال یکساں ہے ،وہ یہ کہ بجلی کب آتی ہے اور کب جاتی ہے ،کوئی نہیں جانتا ۔وادی کشمیر میں بجلی کی آنکھ مچولی کا حال صدیو ں پرانا ہے ۔

ایک تو لوڈ شیڈنگ ،اُس پر ستم ظریفی یہ کہ سمارٹ میٹر کی تنصیب ،جناب جموں وکشمیر ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں معاشی طور پر کافی کمزور ہے ۔یہاں لوگ شیش محلوں میں نہیں رہتے ۔

حکومتی اقدامات پر عوام سراپا احتجاج ہے ۔حکومت کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ لوڈشیڈنگ کم کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔

تاہم صارفین کا ماننا ہے کہ موسم بہار میں موسم سرما کا کٹوتی شیڈول جاری رکھنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔کم و بیش ہر سیاسی پارٹی یہ بیان جاری کررہی ہے کہ انتظامیہ کو (سحر وافطار کے اوقات ) بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ناکام ثابت ہوئی ۔

ان کا کہناتھا کہ ماضی میں انتظامیہ اور محکمہ برقیات (سحر وافطار کے اوقات ) بجلی کی سپلائی یقینی بنانے کو ترجیحات میں رکھتا تھا ،لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں خواب خرگوش میں محو ہے ۔

حکومتی دعوﺅں اور زمینی صورت ِ حال اس قدر مختلف ہے ،کہ بیان ہی نہیں کی جاسکتی ۔تبدیلی کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو تبدیلی نظر آئے ۔

کاغذوں ،بیانات اور زبانی جمع خرچ کرنے تک تبدیلی کو محدود رکھنے سے خوشحالی اور استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا ۔عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا ،راحت پہنچا نا اور تاریخ کو بدلنے کے لئے حکمرانوں کو کلیدی رول ادا کرنا ہوگا ۔ماضی کو حال کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے کی روایت بدلنے ہوگی ۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.