بدھ, جولائی ۲, ۲۰۲۵
24.7 C
Srinagar

ڈل جھیل کی صفائی یاتصویری نمائش ۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

شہرہ آفا ق ڈل جھیل اپنی بے پناہ خوبصورتی کے لحاظ سے نہ صرف مقامی ،ملکی بلکہ پوری دنیا میں اپنی ایک پہنچان رکھتی ہے۔

سری نگر کا شہر اسی کے کنارے آباد ہے۔ دنیا کی چند ممتاز سیرگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ چونکہ دریائے جہلم اس کے بیچ سے ہو کر نکلتا ہے اس لیے اس کا پانی شریں ہے۔

سرینگر شہر کے بیچ 25 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی، اس جھیل میں دلہن کی طرح سجائے گئے ہاوس بوٹس اور شکارے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

ڈل جھیل کو دنیا بھر میں اس خطے کی پہچان سمجھا جاتا ہے اور یہ عالمی شہرت یافتہ جھیل موسمِ گرما میں سیاحوں اور مقامی لوگوں کی چہل پہل سے کِھل اٹھتی تھی۔

کشمیر میں ہاوس بوٹ نا صرف اس خوبصورت جھیل ڈل کا زیور ہیں بلکہ یہ کشمیر کی دستکاری کا بھی نمونہ ہیں۔

دیودار کی لکڑی سے بنا ہاوس بوٹ ایک چھوٹے بحری جہاز کی طرح ہوتا ہے جس میں ہوٹل کی طرح کمرے اور اوپر ایک دالان ہوتا ہے۔

لکڑی پر خوبصورت اور دلکش نقاشی کی جاتی ہے اور سیاح ہاو¿س بوٹ میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

1880کی دہائی میں نارائن داس نامی ایک کشمیری تاجر کی دکان آگ سے تباہ ہو گئی تو ااس نے جھیل ڈل میں کشتی کو دکان کی شکل دے دی، جس میں وہ رہنے بھی لگے۔

بعد میں جب اس وقت کے ڈوگرہ مہاراجہ نے غیر کشمیریوں کے وادی میں زمین یا مکان خریدنے پر پابندی عائد کردی تو انگریزوں کو مشکلات پیش آئیں۔نارائن داس نے اپنی کشتی ایک انگریز کو فروخت کر دی۔

اس طرح کشمیر کا پہلا ہاو¿س بوٹ وجود میں آیا جس کا نام’کشمیر پرنسیس‘ رکھا گیا۔ نارائن داس کو جب لگا کہ یہ منافع بخش کام ہے تو اس نے ہاوس بوٹ بنوانے شروع کیے اور انگریز انہیں خریدتے گئے کیونکہ مہاراجا کے قانون کا اطلاق پانی پر نہیں ہو سکتا تھا۔

نارائن داس کشمیر میں ’ناﺅ نارائن ‘ کے نام سے مشہور ہو گئے۔ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ہاو¿س بوٹ عالمی شہرت یافتہ ڈل جھیل کے حسن اور دلکشی کی علامت بنے ہوئے ہیں ۔

الغرض یہ کہ اگر جھیل ڈل کی خوبصورتی یا اسکی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے ،تو کتا بیں بھی کم پڑجائیں گی ۔عالمی کثافت کی وجہ سے یہ شہرہ آفاق ڈل جھیل بھی محفوظ نہ رہ سکی جبکہ انسانی ہاتھوں کی خود غرضی نے اس جھیل کی خوبصورتی کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ۔

اس جھیل کی شان ِ رفت بحال کرنے کے لئے ماضی ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے کئی منصوبے ترتیب دئے ،اربوں روپے خرچ کئے گئے ،لیکن ڈل جھیل کی شان ِ رفت اب بھی بحالی کی منتظر ہے ۔

حال ہی میں” اتھواس“نام کے تحت جھیل ڈل میں صفائی مہم کا آغاز کرنے کے دوران جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا کہناتھا کہ جھیل ڈل کی شان رفت کو بحال کرنے کے لیے حکومت پر عزم ہے اور گزشتہ دو برس سے جھیل ڈل اور نگین جھیل میں جاری صفائی مہم کے خاطر خواں نتائج بھی بر آمد ہوئے ہیں کیونکہ اس صفائی مہم میں انتظامیہ نے مقامی لوگوں کی شرکت کو یقینی بنایا ہے۔

منوج سنہا نے کہا تھا کہ گزشتہ دہائیوں میں جھیل ڈل اتنا صاف نہیں تھا جتنا کہ آج یہ صاف دکھائی دے رہا ہے۔

جھیل اور نگین جھیل کو اپنی ہیت میں بحال کرنے سے متعلق حکومت کتنی سنجیدہ ہے ،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امسال کے بجٹ میں نگین اور ڈل جھیل کی ترقی کے لیے373 کروڑ روپے مختص رکھے گئے ہیں۔

اگرچہ اس سے قبل جھیل کے رکھ رکھاو¿ اور ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ مختص رکھا جارہا تھا لیکن اس طرح کی پہل جو کہ انتظامیہ نے عام لوگوں کی شراکت داری سے شروع کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہیں اور یہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ ہورہی ہے۔مہم اور عوامی بیداری پھیلانا خوش آئندہ قدم ہے ،لیکن لیک کنزر ویشن اینڈ منیجمنٹ اتھارٹی (ایل سی اینڈ ایم اے ) ،جس انداز سے اتھواس صفائی مہم چلائی رہی ہے ،ایسا لگتا ہے کہ یہ خالص تصویری نمائش ہے ۔

چند طلبہ ،سیول سوسائٹی اراکین یا رضاکاروں کو شکاروں میں بٹھا جھیل کی سیر کراکر اُن کے ہاتھوں ڈنڈے دیکر ڈل جھیل کی صفائی ممکن نہیں ،یہ صرف خانہ پوری کے مترادف ہے ۔

ڈل جھیل تب ہی صاف ہوجائے گا ،جب اس کی گود میں رہنے والے لوگوں کی خدمات حاصل کی جائیں اور افرادی قوت کیساتھ ساتھ مشینری کو بروئے کار لایا جائے ۔صفائی مہم تصویری نمائش تک محدود رکھنا لا حاصل عمل ہے ۔سوچ بدلنے کیساتھ ساتھ جوابدہی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔

Popular Categories

spot_imgspot_img