ایک طرف خشک موسم اور دوسری جانب سفیدوں سے نکلنے والی روئی نے عام لوگو ں کی ناک میں د م کر کے رکھ دیا ہے ۔
وادی کشمیر میں کوئی بھی ایسی جگہ نہیں ملے گی جہاں یہ روئی نظر نہیں آتی ہے ۔
ماہرین کے مطابق یہ روئی جان لیواءثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اسے زوکام ،کھانسی اور دمہ پیدا ہو سکتا ہے، یہاں یہ بھی کہنا بے حد ضروری ہے کہ اس روئی کی وجہ سے آگ نمودار ہو سکتی ہے کیونکہ اسمیں پٹرول جیسا کوئی مواد پایا جارہا ہے ،جو معمولی چنگاری ملنے سے آ گ کے شعلوں میں بھڑک جاتی ہے ۔
کورونا وائرس کی خطرناک وباءنے پہلے ہی مریضوں کیلئے مسائل ومشکلات پیدا کئے ہیںاور اب گزشتہ چند مہینوں سے اس میں راحت کیا ملی، تو ایک اور مصیبت نے روئی کی شکل میں جنم لیا ہے ۔
چوں کہ مارچ۔ اپریل میںبہت زیادہ بارش ہو جاتی تھی اور اسکی بدولت سفیدوں سے نکلنے والی یہ روئی عام آدمی کو تنگ نہیں کر پاتی تھی بلکہ بارشوں سے اسکا خاتمہ ہو جاتا تھا ،لیکن ا ب کی بار بارشیں بھی نہیں ہوئی ہیں ۔نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ یہ روئی گھروں ،دفتروں ،گاڑیوں میں بغیر کسی مشکل کے داخل ہو رہی ہے اور ہر نکڑ ہر چوراہیں پر اس کے یہ نظر آرہے ہیں ۔
چند برس قبل جموں وکشمیر انتظامیہ نے اس حوالے سے ہنگامی اقدامات اُٹھا کر لوگوں کو یہ سفیدہ کے درخت کاٹنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا اور اس طرح کے سفیدہ درختوں کو لگانے پر پابندی عائد کی تھی لیکن وقت کی دیمک نے اس حکم نامے کو بھی پھاڑ دیا ہے ۔
اس بات کا واضح ثبوت یہاں سے ملتا ہے کہ پابندی اور خاتمے کے باوجود یہ سفیدوں کی روئی کہاں سے نمودار ہو رہی ہے ۔بہرحال یہ بات ہمیشہ مشاہدے میں آئی ہے کہ چاندنی صرف 4دنوں تک ہی رہ جاتی ہے ،پھر اندھیری رات کا قیام ہوتا ہے۔
اسی طرح ہمارے انتظامی حکم نامے بھی حکم نواب تا درنواب ثابت ہو رہے ہیں۔اب لوگوں کو اس روئی کے مضر اثرات سے خود ہی بچنے کی کوشش کرنی چاہیے خاصکر دمہ کے مریضوں ،کووڈ متاثرین اور مختلف بیماریوں میں مبتلاءلوگوں کو بغیر ماسک کے فی الحال نہیں چلنا چاہیے اور اس روئی کا خاتمہ دھیرے دھیرے ہوتے ہی ماسک پہننا چھوڑ دے ۔
انتظامیہ کو بھی اپنے سابقہ حکم نامے پر نظر ثانی کر کے دوبارہ اسکو نافذکرنا چاہیے تاکہ آئندہ اس خطرناک اور مضر روئی سے نجات مل سکے ۔