پیر, ستمبر ۱۵, ۲۰۲۵
23 C
Srinagar

رمضان ،گدا گری ،پیشہ اور مجبوری

تحریر:شوکت ساحل

ماہ ِ رمضان کے آغاز کیساتھ ہی نہ صرف وادی کشمیر میں بلکہ ملک کے مسلم اکثریتی خطوں یا ریاستوں میں گدا گری عروج پر پہنچ جاتی ہے ۔کہتے ہیں کہ پیٹ کی جہنم بھرنے کی خاطر تو انسان کچھ بھی کر گزرتا ہے۔

اسی پیٹ کے لیے لوگ مختلف قسم کے پیشے اپناتے ہیں۔بھیک مانگنا بھی پیشے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔

بس اسٹاپ پر کھڑے ہوں یا ٹریفک سگنل پر، شہر میں ہوں یا دیہات میں، پیدل ہوں یا سوار، ”اللہ کے نام پر کچھ دے دیں، اللہ کے لیے میری مدد کریں،میرا شوہر بیمارہے ،بچہ بیمار ہے،میں بیوہ ہوں ،میرا کوئی نہیں ، اس قسم کے الفاظ آپ کی سماعت سے ضرور ٹکرائے ہوں گے۔

یہ الفاظ بھکاریوں کے ادا کردہ ہوتے ہیں۔اسے حقیقت کہیے یا اتفاق ،کہ بھکاری انسانی نفسیات کے چنگے بھلے ماہر ہوتے ہیں۔

ان کوسب معلوم ہوتا ہے کہ کیسے انسانی جذبات پر حاوی ہوکر لوگوں سے پیسے نکلوائے جاتے ہیں۔

یہ صرف ماہر نفسیات ہی نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک اداکار بھی ہوتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ اور ہمدردیاں اپنی طرف مبذول کرنے کے یہ سارے ہنر و گر بخوبی جانتے ہیں۔

وادی کشمیربھی اس گرفت میں آچکا چکی ہے ،یہاں نہ صرف مقامی پیشہ ور گداگر ہیں بلکہ بیرون ریاستوں سے بھیک مانگنے کے لئے بھی گداگروارد ہوتے ہیں ۔

مانگنے والے ہاتھ مساجد ،خانقاہوں اور صوفی بزرگوں کی زیارت گاہوں کے قریب خیمہ زن ہوتے ہیں ۔بیرون ریاستوں سے معذور گداگروں کا کشمیر وارد ہونا اور یہاں خیمہ زن ہو نا ،بظاہر کوئی تعجب تو نہیں ،لیکن یہ ایک پیشہ ہے ،تو اسکے ٹھیکہ دار بھی ہیں اور کمیشن یعنی (حصص)کی بنیاد پر اُنہیں کشمیر لاتے ہیں اور اپنا الو سید ھا کرتے ہیں ۔

بات صرف یہاں ہی نہیں رُکتی ،اب یتیم بچوں اور بچیوں کیساتھ ساتھ بیواﺅں کے نام پر لوگوں کے جیبوں پر ہاتھ صاف کیا جاتا ہے ۔

مسافرگاڑیوں ،لاﺅڈ اسپیکر لگا کر گلی کوچوں سے رمضان میں زکواة اور صدقات کے نام پر لوگوں کو لوٹا جارہا ہے ۔

حکومت نے کئی بار ان کے خلاف کارروائی کی، مگر سب بے سود رہا اور یہ لوگ پھر سے اسی پیشہ کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں ۔

وادی میں مانگنے والوں کی کمی نہیں ہے اور ابھی بھی یہ جا بجا نظر آتے ہیں، ان میں سے کچھ ایسے افراد یا خواتین ہیں جو گلیوں محلوں میں گدا گری کے بہانے چوری چکاری کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

ایسے گروہوں کے خلاف حکومت کو سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے،تا کہ یہ جرائم پیشہ افراد اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکیں ۔

زیادہ تر بھکاری نقلی زخم یا معذوری ظاہر کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں ۔بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ اس بات کی غمازی ہے کہحکومت اسے مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

ماہ رمضان میں زکواة اور صدقات دینے میں لوگ کافی دلچسپی دکھاتے ہیں ،تاکہ نیکیاں حاصل کی جائیں ،جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کیا ہے ۔

لیکن جب گداگری الگ الگ شکلوں میں سماج اور معاشرے میں پیشہ اور ناسور بنتی جارہی ہے ،ایسے میں مجبوراور مستحق لوگ زکواة اور صدقات سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

لوگوں کو بھی اب گداگری کے پیشہ کو ختم کرنے میں اپنے اندر شعور پیدا کرنا چاہیے اور اپنے ارگرد اور رشتہ داروں میں مستحق افراد کی مدد کرکے نیکیاں حاصل کرنی چاہیئں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img