ملی ٹنسی کے بڑھتے واقعات سے جہاں عام لوگ پریشان ہیں وہیں سیکورٹی اداروں کیلئے یہ مسئلہ روز بروز سنگین بنتا جا رہا ہے کیونکہ وہ ہر فرد کو سیکورٹی نہیں دے سکتے ہیں نہ ہی ان کے پاس کوئی جادوئی چھڑی ہے جس سے پتہ چل جائے کہ کون ملی ٹینٹ ہے اور کون نہیں ؟مرکزی وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں ایک اپوزیشن ممبر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ تھا ہے اور رہے گا۔انہوں نے کہا کہ میں کبھی کسی پر ناراض نہیں ہوتا لیکن جب کشمیر کی بات آتی ہے تو مجھے غصہ آتا ہے۔جہاں تک 1990ئ میں شروع ملی ٹنسی کا تعلق ہے اس نے وقت وقت اپنے تیور بدل ڈالے۔کبھی اسکو عوامی رنگ دینے کی کوشش کی گئی تو کبھی اسکو عالمی سطح پر پذیر راہی ملنے کیلئے تگ دو گئی ،مگر ہمیشہ مرکزی سرکار نے سیکورٹی اداروں سے ملکر اسکو ڈپلو میٹگ انداز سے شکست دی۔
اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ 3مہینوں کے دوران پولیس ،فوج اور دیگر حفاظتی دستوں کےساتھ جھڑپوں میں لگ بھگ 40ملی ٹینٹ مارے گئے۔اس کے باوجود مقامی ملی ٹینوں کےساتھ ساتھ غیر ملکی ملی ٹینٹ صفوں میں شامل ہو رہے ہیں اسطرح نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے اس سارے معاملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے اور وہاں موجود سیاستدان اور دیگر لوگ کھل کر ان ملی ٹینٹوں کی حمایت کرتے ہیں۔گزشتہ 3مہینوں کے دوران لگ بھگ ایک درجن عام شہریوں کو ملی ٹینٹوں نے گولیاں مار کر یا تو ازجان کیا یا پھر زخمی کیا جو کہ سب سے اہم مسئلہ تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ ایک طرف سیاحتی سیزن کی شروعات ،دوسری جانب انتخابی عمل کا بگل بجایا گیا اور تیسری جانب امرناتھ یاترا کا اعلان بھی کیا گیا تو سیکورٹی اداروں کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج ہو سکتا ہے کیونکہ پوری طرح سے ملی ٹنسی کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں ہو سکتا ہے جب تک نہ اس کے بنیادی جڑوں کوکاٹا نہیں جا سکتا ہے یا پھر ان لوگوں کےساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کئے جاتے ۔آخر کب تک وادی کی سرزمین انسانی خون سے لالہ زار ہوتی رہے گی کب تک سیکورٹی اہلکاروں کےساتھ ساتھ عا م لوگ مرتے رہینگے اس پر غور کرنے کی بے حد ضرورت ہے اور مرکز میں موجود پالیسی سازوں کو اس پر گہرائی سے سوچنا چاہے تاکہ وادی میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امن قائم ہو سکے۔