ٹنل کے آر پار آگ کی ہولناک وارداتوں کی وجہ سے خوف ودہشت پھیل چکا ہے کیونکہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران درجنوں آگ کی پُر اسرار وار داتیں رونما ہوئیں، کروڑوں روپے مالیت کی جائیدادیں خاکستر ہوگئیں ۔
گزشتہ رات نور باغ علاقے میں تقریباً 2درجن مکانات خاکستر ہو گئے اور اس واردات میں کئی افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں ،اس سے قبل شہر سرینگر کے راجوری کدل اور زینہ کدل علاقوںمیں بھی اس طرح کی آگ وارداتیں رونما ہوئیں،پونچھ میں بھی چار رہائشی مکانات خاکستر ہوئے ۔
یہ خبر یں سن کر عوامی حلقے دم بخود ہو چکے ہیں ،کیونکہ کبھی کبھار ہی آگ کی واردات رونما ہوتی تھی لیکن جس تیزی اور رفتار کےساتھ شہر ودیہات میں آگ کی وارداتیں رونما ہو رہی ہیں ۔
یہ ایک انتہائی غور وفکر کا مسئلہ ہے، آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟ ۔اس سے قبل اگرچہ کورونا وائرس کی وجہ سے لوگ مصائب ومشکلات جیل چکے ہیں اور غربت وافلاس نے لوگوں کی کمر توڑرکھی ہے، اب ایک اور پریشانی نے جنم لیا ہے ۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ انسان کی اپنی لاپرواہی کی وجہ سے اس طرح کی وارداتیں رونما ہو رہی ہیں یا پھر بجلی ناقص ترسیلی نظام ان واقعات کیلئے ذمہ دار ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ روز روز اس طرح کی وارداتیںرونما کیوں ہو رہی ہیں؟
کیا لو گ ذہنی طور کمزور ہو چکے ہیں کہ انہیں اب ا ن باتوں کا بھی علم نہیں ہے کہ اُن کی تباہی لاپرواہی اور کوتاہیوں سے ہو سکتی ہے یا پھر کوئی آسمانی آفت اس کو قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ لوگ گمراہ ہو چکے ہیں ،صحیح اور غلط کا اب تمیز ہی نہیں رہا ہے ۔
ان حالات میں احتیاطی تدابیر کے علاوہ توبہ واستغفار کی اشد ضرورت ہے تاکہ قوم کشمیر کو ا ن مصائب سے نجات حاصل ہو سکے ۔
سرکار کو بھی اس حوالے سے اپنی مہم چلانی چاہیے کہ کس طرح آگ کے وارداتوں سے نجات حاصل ہو سکتی ہے اور لوگوں کو بھی ہوشیار اور چوکنا رہنا چاہیے تاکہ ایسی آفات سے نجات حاصل ہو سکے ۔