جموں وکشمیر میں بے روز گاری کا سب سے بڑا مسئلہ عوام کو درپیش ہے، کیونکہ جموں وکشمیر خاصکر وادی میں سیاحتی صنعت ،سرکاری ملازمت اور باغبانی کے شعبے سب سے اہم روزگار کے وسیلے ہیں۔
ان کے علاوہ دیگر تجارت اور کاروبارنہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ یہاں آبادی بہت کم ہے ۔لہٰذا کوئی بھی تجارت بہتر ڈھنگ سے فروغ نہیں پارہی ہے ۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان اپنی عمر ڈیلی ویجری میں ضائع کرچکے ہیں اور ابھی بھی انہیں مستقل ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہے ۔
اس بے روزگاری سے نمٹنے کیلئے جموں وکشمیر انتظامیہ نے فائناشل کمشنر کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دیا ہے تاکہ وہ سرکاری اور دیگر اداروں میںروزگار کے و سائل تلاش کر کے اسامیوں کو پورا کرنے کیلئے ایک طریقہ کار عمل میں لائے گا ۔
گزشتہ 3دہائیوں سے تجارت ،سیاحت اور تعلیم کے شعبے زبردست متاثر ہو گئے ،جہاں تک باغبانی کا تعلق ہے کسی حد تک اسکی بدولت آمدنی حاصل ہو رہی تھی لیکن غیر معیاری ادویات ،کھاد اور موسمی تبدیلی نے اس شعبے کو بھی بے حد متاثر کیا ،اس طرح اس شعبے میں کام کر رہے لوگوں نے بھی اب اپنا راستہ بدل دیا ہے ۔
اعداد وشمار کے مطابق وادی میں اس وقت 2لاکھ کے قریب پڑھے لکھے نوجوان مختلف سرکاری محکموں میں بحیثیت ڈیلی ویجر کا م کررہے ہیں اور ہر حکومت نے اُن کو سنہرے خواب دکھائے لیکن ابھی تک نہ ان کی نوکری مستقل ہو گی نہ ہی اُن کی اجرت میں اضافہ ہو گیا ،جہاں تک زمینی سطح پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہی ڈیلی ویجر بجلی ،واٹر ورکس ،فارسٹ اور دیگر اہم محکموں میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جبکہ لاکھوں روپے تنخواہ پانے والے مستقل ملازمین خود دوسرے پرائیویٹ کام انجام دے رہے ہیں ۔
ایل جی انتظامیہ نے ٹاسک فورس تو تشکیل دیا ہے کہ وہ اسامیوں کی نشاندہی کرے گاتاکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کی جائیں لیکن ان ہزاروں ڈیلی ویجروں کے بارے میں بھی سرکار کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور اُن کی اجر ت میں اضافہ ہونا چاہیے یا پھر مستقل بنیادوں پر اُن کی تعیناتی عمل میں لانی چاہیے کیونکہ ان ڈیلی ویجروں کےساتھ آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ وابستہ ہے جو مسائل ومشکلات برداشت کررہا ہے۔یہاں یہ بات بھی بے حد ضروری سمجھ لینی ہوگی کہ سرکار سب پڑھے لکھے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں فراہم نہیں کر سکتی بلکہ انہیں خود روزگار کمانے کے وسائل تلاش کرنے چاہیے جس کیلئے سرکار نے بے شمار اسکیمیںمرتب کی ہےں اور یہاں سے باہر نکلنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے تاکہ اُنکا مستقبل بہتر بن سکے ۔