کشمیر اور دیوار ِ مہربانی مہم ۔۔۔۔

کشمیر اور دیوار ِ مہربانی مہم ۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

وہ کون تھا ،اس کا نام کیا تھا اور وہ کہاں کا رہنے والا تھا ،دنیا نہیں جانتی لیکن اس کے ایک فیصلے نے کروڑوں لوگوں کی سوچ بدل دی اور سوچ بدلنے کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا ۔

یہ دریا اب بھی بہہ رہا ہے ،اس اجنبی نے کیا کیا ؟اس نے دیوار پر کھونٹیاں لگائیں ،ان پر اپنے فالتو کپڑے لٹکائے ،دیوار پر جلی حروف میں ( وال آف کائنڈنس) یعنی’دیوار ِ مہربانی ‘لکھا ،اس کے نیچے یہ دو فقرے لکھے اور غائب ہوگیا ’اگر آپ کو ضرورت نہیں تو یہاں لٹکا جایئے اور اگر آپ کو ضرورت ہے تو آپ یہاں سے اتار لیجئے ‘۔

اس دیوار مہربانی نے دنیا کوورطہ حیرت میں ڈال دیا یہ دیوار مہربانی اب ایک وائرس کی مانند پوری دنیا میں پھیل رہی ہے ۔

دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا خطہ ہوگا ،جہاں اب دیوار ِ مہر بانی نہ دیکھنے کو ملتی ہو ۔بی بی سی اردو کی ایک خبر کے مطابق دیوار مہربانی مہم کی شروعات سنہ2016میں ایران کے شہر مشہد میں شروع ہونے والی ’دیوارِ مہربانی‘ مہم سے ہوئی اور یہ اب دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکی ہے ۔

دیوار ِ مہربانی کی مہم کشمیر بھی پہنچ چکی ہے ۔سنہ2018میں دریائے جہلم کے ایک خاکستر ہوٹل کی دیوار کو دیوار ِ مہربانی میں تبدیل کیا گیا ۔

یہ دیوار مہربانی اب بھی موجود ہے ۔اس طرح کی دیواریں شہر کے مختلف علاقوں میں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔

اسی طرح کی ایک دیوار 2015بیچ کے کشمیر پولیس سروس افسر (کے پی ایس ) شیخ عادل مشتاق ساکنہ بارہمولہ ،جو اُس وقت ڈی ایس پی ٹریفک پولیس سرینگر تعینات تھے،ایس ایس پی سرینگر کے باہر قائم کی ۔دیوار مہربانی سے دیوار ِ احساس تک یہ مہم شروع ہوگئی ۔

کشمیر میں اس مہم کی ضرورت کتنی ہے ؟یہاں کل کتنی آبادی سڑکوں پر سر ِ راہ سوتی اور جیتی ہے ۔

اگر نظر ڈالی جائے ،تو یہاں اس طرح کی آبادی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے ،لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وادی کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر کوئی نہیں سوتا بلکہ یہاں ایسے لوگ ہیں ،جو بے گھر ہیں اور سڑکوں پر سوتے ہیں ۔

گرمیوں کے ایام کے دوران سڑکوں پر زندگی کا سفرکسی طرح کاٹا جاسکتا ہے ،لیکن منفی درجہ حرارت میں یہ سفر کافی دشوار ترین ہوتا ہے اور موت کو دعوت دینے کے مترادف بھی ہے ۔

سوال پھربھی اپنی ہی جگہ کیا ،دیوار ِ مہربانی قائم کرنے سے ہم ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرسکتے ہیں ،کیا یہ مہم زکوٰةکا متبادل ہوسکتی ہے ،ہرگز نہیں ۔ماہ ِرمضان آتے ہی زکٰوة کی لوٹ مار شروع ہوجاتی ہے۔

قربان جایئے اس دین کے کہ زکوٰة ، صدقات و خیرات کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اس دین کے ماننے والے غربا ومساکین کی مدد کے لئے ایک ایسا دروازہ کھول دیا کہ انہیں بغیر کسی سرکاری مدد کے بھی زندہ رہنے کا سہارا ہے۔

دیوار پر فالتو کپڑے لٹکانے سے ہم اُن ضرورت مندوںتک نہیں پہنچ پائیں گے ،جو ٹین شیڈ یا لکڑی کے شیڈ میں زندگی گزار تے ہیں ۔

کچے وپکے مکانوں میںرہنے والے ضرورت مندلب کشائی بھی نہیں کرتے ،اُن تک پہنچنے کی ضرورت ہے ۔

ہمارے معاشرے میں صاحب استطاعت لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے ،جن کو یہ معلوم نہیں کہ کشمیر میں دیوار مہربانی نام کی بھی کوئی دیوار ہے، جہاں غریبوں کے لئے کپڑے، جوتے اور دیگر اشیاءعطیہ کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح غریب اور مستحق طبقہ بھی اس بات سے لاعلم ہے کہ یہ دیوار انہی لوگوں کے لئے ہی تو بنائی گئی ہے جہاں سے وہ بلامعاوضہ، مفت ملبوسات، جوتے و دیگر اشیاءلے سکتے ہیں۔اسلامی تعلیمات کے مطابق خیرات و صدقات کرتے وقت پردہ پوشی اختیار کرنے کی سختی سے تلقین کی گئی ہے تاکہ دوسرے بندے کی عزت نفس مجروح نہ ہو، غریب اور مستحق افراد کو خیرات و عطیات دیتے وقت اس بات خصوصی خیال رکھا جائے کہ اگر ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔

اس معاشرے میں غریب ہونا بھی ایک جرم ہے۔ انسان کتنا ہی غریب کیوں نہ ہو مگر وہ کبھی بھی اپنی عزت نفس مجروح ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور پھر یہاں بھیڑ بھرے بیچ چوراہے وہ کیسے اپنے لئے ملبوسات وغیرہ اٹھا سکتا ہے۔

دیکھنے والے لوگ تو وقت حال انسانیت کا لبادہ اوڑھ کر خاموش رہتے ہیں لیکن جیسے ہی انہیں بات کرنے موقع ملتا ہے تو وہ اپنے اندر کا گند اگلتے ہوئے اس غریب کو یہ طعنہ ضرور دیتے ہیں کہ تم تو چوراہوں سے کپڑے اٹھانے والے ہو۔ایسے میں اپنی اپنی سوچ کو اُسی مہم کی طرح بدلنے کی ضرورت ہے ،جس طرح اُس انجان شخص نے دیوار ِ مہربانی مہم کا آغاز کیا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.