سنہ 1990ءمیں کشمیری پنڈتوں کےساتھ ہوئی زیادتی اور اُنکو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کئے جانے پر ایک ہندی فلم ’کشمیر فائلز‘ کے نام سے ریلیز ہوئی ہے اور سوشل میڈیا پر اس فلم کے حوالے سے ایک بحث چھیڑ گئی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 1990ءمیں شروع ہوئی ملی ٹنسی کے پیچھے پڑوسی ملک کے حکمرانوں کا ہاتھ تھا اور انہوں نے اپنے منصوبوں کو عملانے کی کوشش کرتے ہوئے، وادی میں ہند ومسلم بھائی چارے کو زبردست زک پہنچایا ،اس طرح راتوں رات لاکھوں کشمیری پنڈتوں کو اپنی زمین جائیدادیں چھوڑ کر اپنا مادری وطن چھوڑ نا پڑا اور برسوں تک جموں کے مختلف رفیوجی کیمپوں میں پناہ گزین بن کر رہنا پڑا ۔
اس دوران انہیں کن مسائل ومشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ وہی لوگ بہتر جانتے ہیں اور اسکا در د محسو س کرسکتے ہیں ۔
نندی مرگ ،وندہامہ قتل عام بھی ہوئے اور عورتوں کو بھی ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وقت وقت پر مختلف قوموں اور ملکوں کے عوام پر ظلم وجبر وتشدد کیا گیا ۔
کبھی وقت کے حکمرانوں نے تو کبھی اکثر یتی فرقے نے،،،، اس حوالے سے تواریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں لیکن جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے ،یہاں جو ہندومسلم بھائی چارہ صدیوں سے دیکھنے کو ملاہے ،اُسکی دنیا بھر میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی جب کوئی ہندو مرجاتا ہے تو مسلمان اُن کے آخری رسومات انجام دیتے ہیں اور جب کسی مسلم لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو پنڈت بھائی اُسکی ڈولی کو کندھا دیتا تھا ،یہ سلسلہ آج بھی کہیں کہیں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
فلم بنانا اور حقائق کو سامنے لانا ایک قلمکار ،ہدایت کار اوراداکار کا حق ہوتا ہے لیکن شرط یہ ہونا چاہیے کہ اس فلم ساز کی کوششوں سے ملک وقوم کے لوگوں کو فائدہ پہنچنا چاہیے نہ کہ دو فرقوں کے درمیان نفرت ،حسد وعداوت پھیلنی چاہیے۔
جیسا کہ فلم دیکھنے کے بعد نئی نوجوان نسل کے تاثرات سن کر بُو آتی ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اُن لوگوں کو اپنے اپنے آباواجداد کی زمین اور جائیدادوں پر پھر سے بسانے کی کوشش کرنی چاہیے ،پھر سے وہ روایتی بھائی چارہ ،آپسی اتحاد واتفاق قائم ہونا چاہیے جس کو توڑنے کیلئے 1990ءمیں ایک منصوبے کے تحت کوشش کی گئی ،مگر ”دی کشمیر فائلز“ میں اسطرح کا کوئی سین درشایا نہیں گیا ہے جو کہ بہت ضروری تھا، باقی فلم پر بحث ومباحثے کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ سوائے فلم بنانے والے کومالی فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ورنہ کس کو معلوم نہیں ہے کہ 1990ءمیں شروع ہوئی درپردہ جنگ میں ہزاروں کی تعداد میں کشمیری مسلمان بھی مارے گئے ہیں، جن میں بچے بوڑھے عورتیں اور جوان شامل ہیں اب بغیر کسی طوالت کے یہاں کے عوام کو مرحم لگانے کی ضرورت ہے اور جو کشمیری پنڈٹ اپنے اباﺅ واجداد کی سرزمین پر آنا چاہتے ہیں ،انہیں وہ تمام سہولیات دستیاب رکھنی چاہیے، جو انہیں درکار ہے ۔