دکھی انسانیت کی خدمت ۔۔۔۔

دکھی انسانیت کی خدمت ۔۔۔۔

تحریر:شوکت ساحل

اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کو انسانوں سے آباد کیا ، ان کے آپس میں رشتے قائم کئے ،باہم ایک دوسرے کے ساتھ ضرورتیں وابستہ کیں ،حقوق و فرائض کا ایک کامل نظام عطا فرمایا۔

دوسروں کو فائدہ پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضہ ہے۔ ایک دوسرے کی مدد سے ہی کاروانِ انسانیت مصروف سفر رہتا اور زندگی کا قدم آگے بڑھتا ہے اگرانسان انسان کے کام نہ آتا تو دنیا کب کی ویرانہ بن چکی ہوتی۔

انسان اپنی فطری ، طبعی ، جسمانی اور روحانی ساخت کے لحاظ سے سماجی اور معاشرتی مخلوق ہے اسے اپنی پرورش ، نشوونما ،تعلیم و تربیت، خوراک و لباس اور دیگر معاشرتی و معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوسرے انسانوں کا کسی نہ کسی لحاظ سے محتاج ہے۔

خدمت خلق وہ جذبہ ہے جسے ہر مذہب و ملت اور ضابطہ اخلاق میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔مذہب میں سے انسانیت اور خدمت نکال دی جائے تو صرف عبادت رہ جاتی ہے اور محض عبادت کے لئے پروردگار کے پاس فرشتوں کی کمی نہیں۔دنیا کا یہ ضابطہ ہے،کوئی انسان تنہا زندگی بسر نہیں کرسکتا۔

ہرانسان زندگی بسرکرنے میں دوسرے انسانوں کا محتاج ہے۔ ہر انسان کی زندگی دوسرے انسانوں کے تعاون کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔کوئی انسان دوسرے انسانوں کے تعاون کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔

ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے اورتعاون لیتے ہوئے ہی انسان کو زندگی کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور ایک مثالی معاشرہ وہی ہوتا ہے، جس میں تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے اورحاجت مندوں کی ضرورت کو پورا کرتے زندگی گزارنے کو اپنا فرض سمجھیں۔

ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا آغاز ہے۔ بلاتفریق ایک دوسرے کی مدد کرنا تمام معاشروں کا خاصہ ہے۔

دنیا کے ہر مذہب نے انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کی تلقین کی ہے۔ ضروت مند کی حاجت روائی ہر مذہب کی بنیادی تعلیم ہے۔اسلام کی حقوق العباد کی تعلیمات معاشرتی ذمے داریوں اور انسانی فلاح وبہبود کی مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔صدقہ، خیرات، زکوٰة، فطرانہ اور وقف یہ تمام عمل مال اور وسائل کو معاشرے کے محروم طبقات تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ہیں۔

دین اسلام سراسر انسانیت کی فلاح کا مذہب ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اخوت، ہمدردی، ایثار، قربانی اور محبت کا حکم دیتا ہے۔ دین اسلام میں محتاجوں، غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے واضح احکامات دیے گئے ہیں۔ہم مسلمان جنہیںہمارا مذہب دکھی انسانیت کی خدمت کا باقاعدہ حکم دیتا ہے، ہم پر تو دکھی انسانیت کی خدمت کرنا اور بھی زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔

دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے بہت بڑی رقم خرچ کرنا ضروری نہیں، بلکہ جس کے پاس جتنی استطاعت ہو، وہ اتنی رقم خرچ کرکے خدمت خلق کرسکتا ہے۔

ہم لوگ اپنی زندگی کی سہولیات کو بڑھانے کے لیے اتنے زیادہ پیسے خرچ کردیتے ہیں، جس میں سے اگر تھوڑا سا بچایا جائے تو بہت سے گھرانوں کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ اپنے گلی محلے میں ضرورت مندوں کو تلاش کریں۔کیوں کہ

Leave a Reply

Your email address will not be published.