موجودہ سائنسی دور میں ہر شعبہ روزبروز ترقی کرتا رہتا ہے اور عام لوگوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے حکمران اور انتظامیہ مختلف قسم کے سیمنار ،سمپوزیم اور کانفرنسیں مختلف سطحوں پر بلاتے ہیں جہاں عام لوگوں کےساتھ ساتھ آفیسران کو ان فائدوں کے بارے میں جانکاری فراہم کی جارہی ہے کہ کس طرح اس جدید سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھایا جا سکتاہے لیکن یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ جب تک عام لوگ اور سرکاری آفیسران ایماندار ،صاف وشفاف اور عوام دوست نہ بن جائینگے تب تک اس سائنسی ترقی کا نہ تو کسی کو فائدہ پہنچے گا اور نہ ہی یہ سائنسی ترقی انسانیت کیلئے سودمند ثابت ہو سکتی ہے ۔
دانشور طبقے کا کہنا ہے کہ جب تک ایک اعلیٰ آفیسر سے لیکر سرکاری چپراسی تک لوگ ایماندار ،مخلص اور انسان دوست نہ بن جائےں تب تک صحیح معاشرہ تعمیر نہیںہو سکتا کیونکہ ایک صاف وشفاف معاشرے کیلئے ایک صاف وشفاف انتظامیہ کا ہونالازمی ہے ۔
خدا بزرگ وبرترنے آدم کی تخلیق اسی لئے فرمائی ہے تاکہ دنیا میں انسان آکر ایک دوسرے کی مدد کریں ،ایک دوسرے سے ہمدردی کا اظہار کرےں ،مصیبت کی گھڑی اور مشکل وقت میں یکجہتی کا مظاہرہ کریں لیکن انسان ہی وہ ذات ہے جو سب کچھ دولت اور لالچ کی دوڑ میں بھول گیا وہ ایک دوسرے پر ظلم کرتا رہا ۔رشوت ستانی ،لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتا رہا ،سرکاری آفیسر دفتروں میں ضرورت مند لوگوں کا خون چوس رہے ہیں ،تاجر اپنی تجارت کے دوران عام صارف کی کھال اتار دیتے ہے،زخیرہ اندوز اور ملاوٹ خور بغیر کسی خوف وڈر کے ملاوٹ کرتا رہتا ہے لیکن وہ عذاب الٰہی سے بے خبر ہیں انہیں یوم آخرت پر یقین نہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو بھی آج تک یہاں لوگ آئے ہیں انہوں نے اس دنیا کو خیر باد کہا ہے۔
سکندر اعظم اور ہٹلر جیسے جانباز بالآخر خالی ہاتھ یہاں سے چلے گئے ۔برعکس اسکے صرف وہ لوگ کچھ لیکر یہاں سے چلے گئے ہیں جنہوں نے قوموں کو صحیح راستہ دکھایا ہے جنہوں نے لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے راستے متعین کر دئیے ۔جنہوں نے اپنے آپکو عام لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے ہمیشہ وقف کیا ۔
دانشور طبقے کا ماننا ہے کہ وہی انسان کا میاب اور کامران ہے جس نے اپنی زندگی دوسروں کیلئے وقف کر دی ہے ۔
لہٰذا ان حالات وواقعات کو مدنظر رکھ کر عوام وخاص کو آج سے ہی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ انسانی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنا شروع کریں۔موجودہ سائنسی ترقی سے فائدہ اٹھانے کیلئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہماری انتظامیہ اس حوالے سے باخبر ہو جائے اور وہ اپنے دفتروں میں اس قسم کا نظم وضبط قائم کریں جن کے تحت کوئی چھوٹا یا بڑا ملازم رشوت نہ لے جو وادی کشمیر کیلئے ایک سب سے بڑا بدنما داغ ہے جس کو مٹانے کیلئے ہر ایک کو متحد ہونا چاہیے اور اپنا فرض انجام دینا چاہیے ۔