دُنیا میں کشمیر کی اپنی الگ پہچان اور منفرد حیثیت تھی ،ہے اور رہے گی کیونکہ اس خطے پر دنیا کے بڑے بڑے قلمکار وں ،ادیبوں اور شاعروں نے بڑی بڑی کتابیں تحریر کی ہے اور یہاں کی تہذیب ،تمدن ،ثقافت ،مذہبی رواداری ،آپسی بھائی چارے ،اخوت مساوات ،سادگی اور شرافت کو قلم کی سیاہی سے رنگ بھر دئیے ۔اس وادی میں بڑے بزرگ آئے اور انہوں نے یہاں کے عوام کی دلجوئی کی ۔
یہاں کے لوگوں کے پیار محبت اور سادگی وشرافت دیکھ کر انہوں نے انہیں مختلف دستکاری کے کام سکھائے ۔
اس وادی میں لالہ دید اور شیخ نور الدین ولی ؒ جیسی روحانی شخصیات نے جنم لیا اور انہوں نے لوگوں کو اپنی روحانی کمالات ،تعلیم وتربیت سے متاثر کر کے اپنا گر ویدہ بنا دیا ۔صدیوں گزر گئی اور ان تعلیمات پر عمل ہو رہا تھا اور ہر انسان خوشی ومسرت سے اپنی زندگی گزار رہا تھا ،جو مختلف لوگوں کو پسند نہیں آیا ۔
انہوں نے لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کے لئے طرح طرح کے حربے آزمائے اور یہاں کے عام لوگوں نے ہمیشہ دشمن کے ان حربوں کو ناکام بنا دیا، کبھی بھی کسی غلط سوچ کو اپنے اُوپر حاوی ہونے نہیں دیا ۔
بہرحال دشمن نے اپنا کام جاری رکھتے ہوئے ،اپنے غلط منصوبوں کو عملانے کیلئے چند افراد کو اپنے جال میں پھنسا دیا اور اس طرح اُن میں زہر بھر کر ایسا ماحول تیار کیا کہ دہائیوں سے لوگ نفرت کی آگ میں جھلستے رہے ۔
ماں ،بہنوں کے سر سے چادریں اُتار گئیں ،بچے یتیم ہو گئے ،والدین اپنے بچوں کے جنازے اُٹھانے پر مجبور ہو گئے ۔
اِدھر مقامی سیاستدانوں نے بھی غلطیوں پر غلطیا ں کر کے عام لوگوں پر طرح طرح کے مظالم ڈالے اور نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے ۔
ملی ٹنسی کی آڑ میں لوگوں کو اپنے بنیادی تعلیمات سے منحرف کیا گیا اور آج وادی کا یہ حال ہے کہ نوجوان طبقہ لالہ دید اور شیخ نور الدین ولی ؒکے نقشہ قدم اور تعلیمات کو ہی بھول گئے ۔
مرکزی سرکار نے وادی میں امن وسلامتی بحال کرنے کیلئے سیکورٹی اداروں کو مضبوط کیا اور ہزاروں کروڑ روپے صرف کئے لیکن ابھی بھی یہاں بہتر نظام زندگی قائم کرنے میں وقت درکار ہے اور اسکے لئے چند نئے منصوبے عملانے کی ضرورت ہے ۔
بنیادی سطح پر عام لوگوں کے مسائل ومشکلات نظر انداز کرنے کی بجائے اصل صورتحال سے باخبر ہونے کی ضرورت ہے اور بنیادی جڑ کو دیکھنا چاہیے ،جہاں سے تمام تباہی وبربادی جنم لیتی ہے ۔
یہا ں ان باتوں پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کس طرح نوجوان طبقے کو پھر سے ان تعلیمات کی جانب راغب کیا جائے جو اُن کے اسلاف اور بزرگوں نے ہمارے لئے چھوڑی ہیں۔
یہی سب سے بڑا کارگر ہتھیار ہے جس سے بنیادی سطح پر حالات بہتر ہو سکتے ہیں ۔انتظامیہ میں ایسے افراد کی نشاندہی کرنی چاہیے جو اپنے ذاتی فوائد کیلئے پوری وادی کو جان بوجھ کرجہنم زارمیں تبدیل کرنے کے لئے درپردہ کام کررہے ہیں ۔ایسے سیاستدانوں کےخلاف قانونی کارروائی کرنے چاہیے، جنہوں نے لوگوں کا استحصال کر کے پورے ملک کیلئے اس وادی میں ناسور پیدا کیا ۔غرض روحانی تعلیمات کو فروغ ملنے سے ہی امن وسلامتی قائم ہو گی ۔