تحریر:شوکت ساحل
سنہ2015میں بی بی سی اردو میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی ، جس میں یہ اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ دنیا میں روزانہ 160افراد کتوں کے کاٹنے سے ہلاک ہوتے ہیں ۔
اس رپورٹ میں گلوبل الائنس فار ریبیز کنٹرول کی ایک رپورٹ کا حوالہ دے کر بتایا گیا کہ ہر سال تقریباً59ہزار افراد کتوں سے لگنے والی بیماری ”ریبیز“ سے ہلاک ہوتے ہیں اور ان کی تعداد غریب ممالک میں زیادہ ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ زیادہ کتوں کی ویکسین کرنا چاہیے۔کتے کے کاٹنے کے بعد لگائی جانے والی ویکسین کو بھی عام لوگوں کے لیے سستا کیا جائے اور یقینی بنایا جائے کہ یہ ان ممالک میں آسانی سے میسر ہو سکے۔
ریبیز ایک ایسی وائرل انفیکشن ہے جو کہ بہت مہلک ہے اور اسے تقریباً 100 فیصد روکا جا سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ انفیکشن سبھی دودھ پلانے والے جانوروں کو لگ سکتی، لیکن پالتو کتے زیادہ تر99 فیصد انسانی اموات کی وجہ بنتے ہیں۔زیادہ ترقی یافتہ ممالک نے، جن میں برطانیہ بھی شامل ہے، کتوں کی آبادی سے ریبیز کو بالکل ختم کر دیا ہے،لیکن کئی ترقی پذیر ممالک میں پالتو کتوں میں ریبیز موجود ہے اور اکثر اس کو اچھی طرح کنٹرول نہیں کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 160 افراد روزانہ اس بیماری سے ہلاک ہوتے ہیں، جن میں سے زیادہ تعداد ایشیا میں ہے (60 فیصد) اور اس کے بعد افریقہ (36 فیصد) آتا ہے۔صرف انڈیا میں ہی ریبیز سے35 فیصد انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں جو کہ کسی بھی ملک سے سب سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔رپورٹ کے مطابق افریقہ اور ایشیا میں ویکسین کیے جانے والے کتوں کی تعداد بہت کم ہے۔
پارٹنرز فار ریبیز پروینشن گروپ کے تحقیق کے مطابق ریبیز کی وجہ سے وقت سے پہلے ہونے والی اموات، متاثرین کی آمدنی کا خاتمہ اور انسانی ویکسین کا خرچ تقریباً8.6 ارب ڈالر ہے۔
اس تحقیق کی سربراہ یونیورسٹی آف گلاسگو کی ڈاکٹر کیٹی ہیمپسن کے مطابق اس تحقیق سے کتوں سے لگنے والی ریبیز بیماری کے اثر کا پتہ چلتا ہے اور کس طرح اسے دنیا کے مختلف ممالک میں کنٹرول کیا جا رہا ہے۔
گلوبل الائنس فار ریبیز کنٹرول کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر پروفیسر لوئس نیل کہتے ہیں کہ ’کسی کو بھی ریبیز سے نہیں مرنا چاہیے اور ہم عالمی طور پر ریبیز کے خاتمے کے لیے کام کرتے رہیں گے۔
‘سنہ2016کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں حکام کا کہنا ہے کہ سنہ 2008 اور 2012 کے درمیان تقریبا 50ہزار مقامی لوگ کتّوں کے کاٹنے سے متاثر ہوئے جن میں سے درجنوں لوگ اس کے وائرس سے ہلاک بھی ہوئے۔
سرینگر میونسپل کارپوریشن کے میئر جنید عظیم متو نے اعلان کیا تھا کہ کتوں کے کاٹنے سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کتوں کی نسبندی کی جائے گی ،لیکن ابھی تک عوام کو اس بات سے آگاہ نہیں کیا گیا ،ہر روز کتنے کتوں کی نسبندی ہورہی ہے اور یہ منصوبہ کہاں تک پہنچا ؟۔کوچنگ سینٹروں کی” مشروم گروتھ“ پر کھل کر بات کرنا صحیح لیکن شہری عوام کو کتوں کی ہڑ بونگ سے محفوظ رکھنا بھی لازمی ہے ۔
جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں کتوں کو ہلاک کرنے پر تشویش کا اظہار تو کرتی ہےں ،لیکن انسانی حقوق کی پامالی پر انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں فی الوقت خاموش ہیں ۔گزشتہ برس ماہ دسمبر میں ایک ہی دن شمالی ضلع کپوارہ کے ہانگاہ ماور ہندوارہ میں آ وارہ کتو ں نے 4افراد پر حملہ کر کے انہیں لہو لہان کر دیا۔
کتوں کی بڑھتی آبادی اور کاٹنے کے واقعات میں ہورہے اضافے پر عوامی حلقوں میں کافی تشویش پائی جارہی ہے ۔گوکہ انٹی ریبیز ویکسین اسپتالوں میں دستیاب ہے،تاہم اس کو ہر طبی مرکز میں رکھنا ضروری ہے ۔تاکہ کتوں کے کاٹنے سے متاثر ہونے والے افراد کی جانیں بچائی جاسکے ۔
انتظامیہ کو اس اہم اور سنگین نوعیت کے معاملے پر پالیسی مرتب کرنی چاہیے ۔ کتوں کی ویکسین یا نسبند ی یا پھر ”انٹی ریبیز “؟کرنا کیا ہے، فیصلہ آپ کا۔۔۔۔