خیال رہے کہ بھارت ک’ی جانب سے نریندر مودی کی دوسری مدت کے لیے تقریب حلف برداری میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کو شرکت کی دعوت نہ دینے کی خبریں سامنے آئیں تھیں۔
شاہ محمود قریشی نے نجی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ ‘الیکشن مہم کے درمیان مودی کی تمام تر توجہ پاکستان کے خلاف جنگی جنون پر مرکوز تھی، اس لیے یہ توقع کرنا نادانی ہے کہ وہ اپنے اس بیانیے سے جلد پیچھے ہٹیں گے’۔
قبل ازیں رائٹرز کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت، نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں وزیراعظم عمران خان کو مدعو نہیں کرے گا۔
بھارتی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ بنگلہ دیش، میانمار، سری لنکا، تھائی لینڈ، نیپال کے رہنماؤں کو نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
پاکستان، افغانستان اور مالدیپ سمیت ساؤتھ ایشیئن ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن (سارک) کے تمام رکن ممالک کو 2014 میں نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی ہم منصب کی تقریب میں شرکت کی تھی۔
گذشتہ شب جیو نیوز کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ برس انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارتی وزیراعظم نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو مبارک باد دی تھی اور خط بھی لکھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ممالک کے درمیان تعلقات دو طرفہ کوششوں پر مبنی ہوتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت نریندر مودی کو مبارک باد دی تھی۔
شاہ محمود قریشی نے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے بجائے مسئلہ کشمیر، سیاچن اور سر کریک کے تنازعات پر بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے حل نکالنا اہم اقدام ہوگا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ‘مذاکرات کے آغاز کے لیے نیا راستہ تلاش کرنا بھارت کی بھی ضرورت ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر مودی اس خطے میں ترقی چاہتے ہیں تو وہ مسائل کے حل کے لیے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کریں’۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ‘کشیدگی کا خاتمہ پاکستان کے مفاد میں ہے، پاکستان نے کشیدگی پیدا نہیں کی تھی، اب پوری دنیا نے بھی یہ حقیقت تسلیم کرلی ہے کہ پلوامہ حادثے میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا’۔
سشما سوراج کو استثنیٰ
گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بھارتی ہم منصب سشما سوراج کے درمیان بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں غیر رسمی ملاقات ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ پلوامہ حملے کے بعد دونوں وزرائے خارجہ کے درمیان براہ راست پہلی ملاقات تھی۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے سشما سوراج کو پاکستانی فضائی حدود سے گزرنے کے لیے غیر معمولی استثنیٰ دیا تھا۔
پاکستان نے 26 فروری کو بالاکوٹ میں بھارتی دراندازی کے بعد بھارت سے آنے اور جانے والی پروازوں کے لیے فضائی حدود بند کردی تھی۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے دی ہندو کو بتایا کہ بھارتی حکومت نے طویل روٹ سے بچنے کے لیے سشما سوراج کو پاکستانی حدود سے گزرنے کی اجازت کی درخواست کی تھی اور ہم نے منظور کرلی۔





