منگل, جولائی ۱, ۲۰۲۵
32.2 C
Srinagar

کشمیری قوم نے کبھی غلام پسندکی ہے نہ آئندہ کریگی: ڈاکٹر فاروق عبداللہ

سرینگر//بھاجپا کی مرکزی حکومت نے ریاست میں نفرتیں پھیلائیں اور یہاں کے عوام کو پشت بہ دیوار کرنے کی مذموم کی گئی جس کی وجہ سے کشمیری قوم میں احساسِ بیگانگی مکمل طور پر سرائیت کر گیا، گذشتہ5برسوں کے دوران یہاں جتنے بھی لوگ مارے گئے اُن کی براہ راست ذمہ دار مرکز کی یہ نفرتیں ہیں جو ان لوگوں نے یہاں پیدا کیں۔ ان باتوں کا اظہار صدرِ نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے چناﺅی مہم کے دوران آج حضرت بل اور چرار شریف میں عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جلوسوں سے پارٹی جنرل سکریٹری علی محمد ساگر، سینئر لیڈران ایڈوکیٹ عبدالرحیم راتھر، محمد سعید آخون، وسطی زون صدر علی محمد ڈار،نائب صدر صوبہ مشتاق احمد گورو، صوبائی یوتھ صدر سلمان علی ساگر ،ضلع صدر سرینگر پیر آفاق احمد اور ضلع صدر بڈگام حاجی عبدالاحد ڈار نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک طرف گورنر صاحب کہتے ہیں کہ دفعہ370اور 35اے نہیں ہٹے گا لیکن دوسری جانب وزیر اعظم اور راج ناگھ سنگھ کہتے ہیں ہٹانا ہے، اب گورنر صاحب ہی بتائیں کہ کون صحیح ہے۔ ہفتے میں دو دن شاہراہ بند کردی گئی، خود فوج کے افسر کہتے ہیں کہ ہمیں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ راستے کس لئے بند کیا گیا، دوسری طرح راجناتھ سنگھ کہتے ہیں کہ یہ حکمنانہ نہیں ہٹے گا۔صدرِ نیشنل کانفرنس نے راج ناتھ سنگھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”ہم کیا تمہارے غلام ہیں؟ یہ ریاست آپ کی غلام ہے کیا؟ ہندوستان کیساتھ ہماری ریاست کا الحاق اس بنیاد پر ہوا تھا کہ ہمیں برابر حق ملے گا اور ہم ہم عزت سے رہ سکیں گے، آج ہمیں پتہ لگا کہ آپ کا وہ مقصد نہیں ہے، آپ کا مقصد یہ ہے کہ ہم آپ کیساتھ غلامی میں رہیں،آپ اس غلط فہمی مت پالیئے،ہم آپ کے غلام نہیں ہیں اور نہ آئندہ رہیں گے۔ان 5سال میں جتنے ہمارے جوان مارے گئے، اُس کے ذمہ دار آپ ہیں، آپ نے یہاں نفرت پیدا کی، وزیر اعظم صاحب اور راجناتھ سنگھ جی آپ اور کتنی لاشیں دیکھنا چاہتے ہو۔ آپ لوگ یہاں نفرتیں پیدا کررہے ہو،ان نفرتوں کو دور کرنا مشکل ہوجائیگا ، بے حد مشکل“۔بھاجپا کے منشور کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے صدرِ نیشنل کانفرنس نے بی جے پی نے اپنے نئے منشور میں پنڈتوں کی یہاں بسانے کا وعدہ کیا ہے، یہی وعدہ 5سال پہلے بھی کیا گیا تھا لیکن 5سال میں ایک کو بھی نہیں بساپائے اور جو خود اپنی مرضی سے آئے اُن کو بھی سہولیات فراہم نہیں کرسکے۔ کل ہی میرے پاس پنڈتوں کے وفود آئے اور ایک نے کہا کہ میں نے یہاں مکان بنا اور واپس آیا اور مرکز کی اعلان کردہ امداد کیلئے درخواست دی لیکن آج تک ایک پیسہ بھی نہیںملا۔ ایک اور وفد نے بتایا کہ ہمیں سرکاری رہائش گاہوں سے نکالا گیا ہے اور ہم سڑک پر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی کو کشمیری پنڈت صرف الیکشن ووٹ کیلئے یاد آتے ہیں لیکن زمینی سطح پر ان کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ ”موجودہ الیکشن جتنا اہمیت کا حامل ہے اُتنا ماضی میں کوئی نہیں تھا، ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ملک میں سب رہیں گے کہ یا صرف ایک پھول رہے ہیں۔ آر ایس ایس اور بھاجپا والے چاہتے ہیں کہ ہندوستان صرف ایک پھول کا رہے اور باقی پھولوںکو مار دیا جائے،خاص طور پر مسلمانوں کو غلام بنا دیا جائے۔ ہندوستان کے آئین میں سب کو برابر حق تھا لیکن جو اس وقت دلی میں جو حکومت ہے وہ انصاف نہیںکرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں وہی رہیں باقی سب مر جائیں“۔انہوں نے کہا کہ جموںوکشمیر کاجب آزاد ہندوستان کیساتھ مشروط الحاق ہوا اور مہاراجہ ہری سنگھ نے یہ الحاق صرف3شرائط پر کیا۔ نیشنل کانفرنس کے بانی شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے بعد میں اس بات کو یقینی بنایا کہ ریاست کے مشروط الحاق کو آئینی تحفظ ملے اور ریاست کی اندرونی خودمختاری قائم و دائم رہ سکے۔ اور دفعہ370اور دفعہ35اے کے ذریعے ریاست کی خصوصی پوزیشن کو آئین ہند میں تحفظ ملا۔ انہوں نے کہا کہ سازشی عناصر جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ جب جب نیشنل کانفرنس اقتدار سے دور رہی تب تب ریاست کی خصوصی پوزیشن کو تہس نہس کیا گیا۔ آج بھی آر ایس ایس اور بھاجپا کے کئی آلہ کار یہاں اُچھل کود کررہے ہیں۔ اسی لئے میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ آنے والے انتخابات ریاست کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہم ہے اور عوام کو اپنے صحیح نمائندے چننے کیلئے جوق در جوق نکل کر حق رائے دہی کا استعمال کرناہوگا۔

جموں وکشمیر کا اڑھائی اضلاع کا مسئلہ ہے تو شاہراہ پر پابندی کیوں؟: عمر عبداللہ


سرینگر// جموںوکشمیر نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ”مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ مرکز میں بیٹھے حکمران آج بھی سچ بولنا پسند نہیںکرتے، میں آج اُس وقت حیران ہوا جب میں نے ٹیلی ویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے ہندوستان کے وزیر اعظم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جموںوکشمیر میں کوئی مسئلہ ہی نہیںاور یہ اڑھائی اضلاع کا مسئلہ ہے۔ میں مودی صاحب سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ اگر جموںوکشمیر کا مسئلہ صرف اڑھائی اضلاع کا مسئلہ ہے تو پھر ادھمپور سے لیکر اوڑی تک شاہراہ دو دن کیلئے بند کیوں رکھی جاتی ہے؟اگر جموں وکشمیر کا مسئلہ صرف اڑھائی اضلاع کا مسئلہ ہے تو پھر یہاں پر اسمبلی الیکشن کیوں نہیں کرائے جارہے ہیں؟ ہمیں اپنی جمہوری حکومت سے محروم کیوں رکھاجارہا ہے اور ہمیں اُن کے لوگوں کے بلبوتے کیوں رکھا گیا ہے جو جموںمیں بیٹھ کر شاہی فرمان جاری کرتے ہیں؟ مسئلہ اڑھائی اضلاع کا ہے تو پھر باقی جگہوں سے افسپا منسوخ کیوں نہیں کیا جارہا ہے؟سمبل سوناواری میں فقید المثال چناﺅی جلسے سے، جس میں صوبائی صدر ناصر اسلم وانی اور پارلیمانی اُمیدوار ایڈوکیٹ محمد اکبر لون بھی موجود تھے، سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ ”حقیقت ہے کہ مرکز جموںوکشمیر کے زمین حقائق سے متعلق خود کو اور ملک کے لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں پارلیمنٹ میں ایسے نمائندوں کی ضرورت ہے جو وہاں جموں وکشمیر کی آواز بنیں اور یہاں کی زمینی صورتحال اور عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کرسکے۔ 2014میں ہماری ریاست سے جو نمائندے گئے وہ ہماری نمائندگی نفی برابر نہیں کرسکے اور بارہمولہ سے گئے رکن پارلیمان نے تو اُس وقت حد کی پار کردی جب اُس نے دلی جاکر کہا کہ کشمیری نوجوانوں دو عدد کُرتے پجامے کیلئے بندوق اُٹھاتا ہے اور یہ باتیں پی ڈی پی ممبر پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کے سامنے کہیں۔ اب اگر آپ کا نمائندہ ہی آپ کی صحیح ترجمانی نہ کرپا یا تو غیروں سے ہم کیا اُمید رکھ سکتے ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ آج کے انتخابات میں بھی کچھ لوگ مختلف قسیم کے لبادے اوڑھ کر اور مختلف نشان لیکر آر ایس ایس اور بھاجپا کے خاکوں میں رنگ بھر رہے ہیں، پی ڈی پی اور پی سی ان میں پیش پیش ہے،ہم ایسی جماعتوں اور عناصر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی سیاسی گاڑی جھوٹ کی بنیاد پر چل رہی ہے۔ آج یہ عناصر ہر بات پر بیان بازی، مذمت، ملامت اور ہمدردی کرتے نظر آرہے ہیں لیکن جب یہ لوگ بھاجپا کیساتھ مخلوط اتحاد میں تھے تب ان لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا، 2016کے بعد جب یہاں کے عوام کو بد سے بدترین مظالم ڈھائے جارہے تھے ، تب یہ لوگ خاموش تھے۔ جب یہاں مسلسل ہلاکتیں ہورہی تھیں تب یہ خاموش تھے۔ جب پیلٹ گنوں سے ہزاروں لوگ زخمی، اپاہج اور نابینا ہورہے تھے ، تب ان لوگوں کے منہ سے آہ تک نہیں نکلی۔ جب یہاں ایک ساتھ 15ہزار نوجوان گرفتار کئے گئے تب ان کی آواز نہیں نکلی۔ بس جونہی کرسی گئی بیان بازیاں، آج ہر بات پر ہمدردیاں، مذمت اور مگرمچھ کے آنسو ۔یہی لوگ آج ریاست کے تشخص کے دفاع کے دم بھر رہے ہیں لیکن جب یہ دونوں جماعتیں بھاجپا کیساتھ مخلوط اتحاد میں تھیں تو ان جماعتوں نے نہ صرف ریاست پر جی ایس ٹی، فوڈ ایکٹ اور سرفیسی ایکٹ جیسے قوانین لاگو کروانے میں بھر پور تعاون دیا۔اس سے بڑی موقعہ پرستی کی اور کیا مثالیں ہوسکیں ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ پی ڈی پی اور پی سی نے بھاجپا کیساتھ حکومت کی اور یہاں NIAکو تمام سختیاں کرنے کی اجازت دی اور ان کیلئے مقامی پولیس کی خدمات بھی میسر رکھیں، کل ہی ہماری ریاست کے سب سے بڑی مذہبی لیڈر میرواعظ عمر فاروق صاحب کو دلی طلب کیا گیا اور 9گھنٹے تک اُن سے پوچھ تاچھ کی گئی اور آج دوبارہ حاضری دینے کیلئے کہا گیا تھا۔ اس سب کی اجازت کس نے دی۔اگر اُس وقت حکومت میں رہ کر ان دونوں جماعتوں نے این کو روکا ہوتا تو آج حالات یہاں تک نہیں پہنچ گئے ہوتے۔ این سی نائب صدر نے کہا کہ پی ڈی پی نے بھاجپا کیساتھ اتحاد کرتے ہوئے یہاں کے لوگوں کو ایجنڈا آف الائنس کے نام پر گمراہ کیا لیکن ایک بھی وعدے کو پورا نہیں کیا گیا، اُلٹا یہاں کے حالات کو بدتر بنادیا گیا اور خصوصی پوزیشن پر حملے کروانے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ہماری شناخت، ہماری پہنچان، ہماری خصوصی پوزیشن کو خطرہ لاحق ہے تو ہم غلط نہیں کہتے کیونکہ پی ڈی پی اور پی سی جیسے اندرونی لوگ آر ایس ایس اور بھاجپا کے مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ دفعہ370اور دفعہ35اے صرف ہماری پہچان اور ہماری شناخت کا مسئلہ نہیں بلکہ ان دفعات کیساتھ ہمارا مستقبل جڑا ہو اہے۔ انہوں نے کہا کہ 35اے کے ذریعے ہمارا سٹیٹ سبجیکٹ قانون محفوظ ہے اور سٹیٹ سبجیکٹ قانون کی بدولت ہی شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کا زرعی اصلاحات کا تاریخی اور انقلابی اقدام ممکن ہوپایا اور ساری زمین مقامی باشندوں کو ملی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہوا ہوتا تو آج یہاں بھی باقی ریاستوں کی طرح کسان قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوتے اور وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہوتے۔ باقی ریاستوںمیں ایسے واقعات اس لئے رونما ہورہے ہیں کیونکہ وہاں کے کسان اُس زمین کے مالک نہیں ہوتے ہے جس پر وہ فصل کی کاشت کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے ہم اس دفعہ35اے کی رکھوالی کریں ،یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے ،ہم آخری سانس تک اس کو بچا کے رکھیں گے اور ہم کوئی بھی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔اس موقعے پر سینئر پارٹی لیڈران شریف الدین شارق، شمی اوبرائے ، میر غلام رسول ناز، تنویر صادق اور ہلال لون بھی موجود تھے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img