نیوز 18 نیٹ ورک کے ساتھ ایک انٹرویو میں مسٹر مودی نے کہا کہ پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی پالیسیوں سے وادی کشمیر کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ ریاست کے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں چاہے وہ آرٹیکل 35 اے ہو یا پھر 370 ہو۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ دراصل 50 سیاسی خاندانوں کی وجہ سے ہے۔ وہ اس مسئلے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ عام کشمیری کو کوئی فائدہ ملے۔ وہ عوامی جذبات کا اپنے سیاسی مفاد کے لئے غلط استعمال کر رہے ہیں۔ محکمہ انکم ٹیکس نے ایسے عناصر پر شکنجہ کسا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے کہا کہ جموں کشمیر میں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع ہونے چاہئے۔ دفعہ 35 اے اوردفعہ 370 ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ وہاں کوئی سرمایہ کاری کے لئے نہیں جاتا۔ ہم آئی آئی ایم بنا سکتے ہیں لیکن پروفیسر وہاں جانے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہاں کے اسکولوں میں ان کے بچوں کو داخلہ نہیں ملتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ لوگ وہاں مکان نہیں لے سکتے ہیں۔ اس سے جموں و کشمیر کے مفادات کو نقصان ہوتا ہے۔ پنڈت نہرو کی پالیسیوں کی وجہ سے ریاست کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں ۔ اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
قابل ذکر ہے کہ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ35 اے کو منسوخ کرنے کا وعدہ دوہرایا ہے۔
انتخابی منشور میں دفعہ 35 اے کو جموں کشمیر کی خواتین اور غیر ریاستی باشندوں کے لئے ‘امتیازی شق’ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘دفعہ 35 اے جموں کشمیر کی تعمیر وترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے، ریاست کے تمام باشندوں کے لئے پُرامن ماحول کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے تمام اقدام کئے جائیں گے، مہاجر پنڈتوں کی وطن واپسی کویقینی بنایا جائے گا اور مغربی پاکستان، پاکستان زیر قبضہ کشمیر اور چھمب کے مہاجروں کی بازآباد کاری کے لئے مالی مدد فراہم کی جائے گی’۔
اس سے قبل کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں کہا کہ ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی اور اس میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کانگریس کے الیکشن منشور میں کہا گیا ہے: ‘کانگریس 26 اکتوبر1947 میں الحاق نامہ پر دستخط ہونے سے جموں کشمیر کے حالات کی شاہد ہے اور کانگریس کا ماننا ہے کہ جموں کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے۔ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ریاست کی مخصوص تاریخ اور وہ مخصوص حالات جن کے تحت ریاست کا ہندوستان کے ساتھ الحاق ہوا اور جس کے باعث دفعہ370 آئین ہند میں شامل ہوا۔ آئینی پوزیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے یا اس کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی’۔
بتادیں کہ دفعہ 35 اے اور دفعہ 370 کے خلاف دائر متعدد عرضیاں اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ دفعہ 35 اے غیر ریاستی شہریوں کو جموں وکشمیر میں مستقل سکونت اختیار کرنے، غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریاں حاصل کرنے، ووٹ ڈالنے کے حق اور دیگر سرکاری مراعات سے دور رکھتی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ 1953 میں جموں وکشمیر کے اُس وقت کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کی غیرآئینی معزولی کے بعد وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعہ آئین میں دفعہ 35 اے کو بھی شامل کیا گیا، جس کی رو سے بھارتی وفاق میں کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل ہے۔