امریکا کی ایک معتدل اور متوازن آواز۔۔۔۔عارف بہار

امریکا کی ایک معتدل اور متوازن آواز۔۔۔۔عارف بہار

رابن رافیل کا نام برصغیر بالخصوص پاکستانی و بھارتی عوام کے لیے قطعی نیا نہیں۔ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں ابھی پاکستان میں متعارف نہیں ہوئی تھیں جب اگست 1988 کی ایک صبح پاکستان سوگ، حیرت اور غیر یقینی میں ڈوبا ہوا تھا، اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو سے ایک تابوت واشنگٹن کی طرف روانہ ہونے کو تیار تھا اور اس تابوت کے قریب ایک خاتون نمناک آنکھوں کے ساتھ سرجھکائے کھڑی حسرت اور یاس کی تصویر بنی تھیں۔ یہ تابوت امریکا کے سفیر مسٹر آرنلڈ رافیل کا تھا اور یہ خاتون ان کی بیوہ مسز رابن رافیل تھیں جو بعد میں امریکی اقتدار کی راہ داریوں میں داخل ہوکر اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ کے منصب تک جا پہنچیں۔ آرنلڈ رافیل جنرل ضیاء الحق کے تباہ ہونے والے طیارے میں سوار تھے۔ کہا گیا تھا کہ جنرل ضیاءالحق نے انہیں اپنے قتل کے امریکی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے زبردستی طیارے میں سوار کیا تھا مگر قدرت کی اپنی منصوبہ بندی تھی۔

رابن رافیل بل کلنٹن کے ہنگامہ خیز دور میں امریکا کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے عہدے پر کام کر چکی ہیں اور اس حیثیت میں ان کا پاکستان اور بھارت کی قیادتوں اور کشمیری نمائندوں کے درمیان قریبی تعلق رہا ہے۔ انہیں کلنٹن انتظامیہ نے کشمیر کے مسئلہ کو سمجھنے اور سلجھانے کا ہدف بھی دیا تھا۔ اس طرح وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے دونوں ملکوں کو قریب لانے کے لیے غیر اعلانیہ سہولت کار کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ 2014 میں امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے ان کے گھر اور دفتر کی تلاشی لی۔ اس چھاپے کا تعلق ان کے شوہر آرنلڈ رافیل کے حوالے سے کسی معاملے سے بتایا جاتا ہے۔ رابن رافیل نے امریکا میں سری نگر کے صحافی کو دورہ امریکا کے دوران اہم انٹرویودیا ہے۔ یہ انٹرویو بھارتی اخبار ریڈف میں تین قسطوں میں شائع ہوا۔ موجودہ حالات میں رابن رافیل کا موقف اور لب ولہجہ نقار خانے میں توطی کی آواز ہے کیوں کہ امریکا میں پاکستان اور بھارت کے حوالے سے جو فضا گزشتہ برسوں میں بنائی گئی ہے اس میں اعتدال اور توازن جیسے رویے قطعی متروک ہو چکے ہیں۔ وقتی مفاد کی بنیاد پر تیار ہونے والا ایک سرکاری بیانیہ ہے جس کو اپنے میڈیا اور تھنک ٹینکس اور پھر بیرونی دنیا کے حلق میں انڈیلا جا رہا ہے۔ اس بیانیے کی مخالفت کرنے والوں کو دہشت گردوں اور دہشت گردی کے سا تھ بریکٹ کیا جانا معمول بن گیا ہے۔

رابن رافیل کا انٹرویو زمینی حقائق کا آئینہ دار ہے اور آج خطے کے بہت سے مسائل انہی زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے کی بنا پر پیدا ہوئے ہیں۔ رابن رافیل کا انٹرویو ”کشمیر سینٹرک “ ہے مگر اس میں پاکستان اور بھارت کے حوالے سے بھی کئی اہم باتیں کی گئی ہیں۔ وہ بھارت میں مودی حکومت کے سخت گیر رویے کے باعث حالات سے مایوس نظر آرہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اور دنیا کے بھارت کی قابل تعریف بات مختلف مذاہب، قومیتوں کے مابین توازن تھا اور وہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہے۔ اب اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ یہ نئی پالیسی اچھی نہیں اور اس کا جاری رہنا بھارت کی بدقسمتی ہے۔ وہ نریندر مودی کے رویے سے مایوس نظر آتی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں رابن رافیل نے پاکستان میں سول ملٹری کشمکش اور اس کے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے سوال پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج ملک کی واحد منظم، ڈسپلنڈ، چسپیدہ قوت ہے۔ یہ ملک صرف ستر سال پرانا ہے۔ سیاسی جماعتیں بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کررہی وہ اپنا ووٹ بینک متاثر ہونے کی وجہ سے اصلاحات نہیں کرتیں۔ پاکستان کی فوج براہ راست اقتدار پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ایسے میں جب یہ وزیرستان جیسے آپریشن میں پھنسی ہو وہ اس کے مضمرات سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔ سیاسی جماعتیں نشوونما اور ارتقا پذیر نہیں ہو رہیں۔ سیاسی جماعتیں اگر مینڈیٹ کے مطابق کام کریں تو فوج اقتدار میں نہیں آئے گی۔ رابن رافیل کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے کئی مواقع ملنے کے باوجود یہ مسئلہ ابھی تک سلگ رہا ہے، رابن رافیل نے لگی لپٹی رکھے بغیر کشمیر کے موجودہ حالات کی ذمے داری بھارت پر عائد کی ہے جس نے طاقت کے استعمال کو مسئلے کا حل سمجھ کر اقدامات کئے اور ایک چھوٹے سے علاقے میں فوج کی اس قدر بڑی تعداد تعینات کر رکھی ہے۔ رابن رافیل کا کہنا تھا کہ جب گزشتہ برسوں وادی میں تشدد کم ہوا تھا تو یہ بھارت کی طرف سے مسئلے کو حل کرنے کا اچھا موقع تھا۔ کشمیر کا مسئلہ صرف پاکستان اور بھارت کے مذاکرات سے حل نہیں ہوسکتا اس کے لیے تین فریقوں پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام کو مل کر بات چیت کرنا ہو گی۔ ان کے مطابق پرویز مشرف کا دور مسئلے کے حل کا اچھا موقع تھا جب ماحول نظریاتی کشمکش اور کشاکش سے باہرآگیا تھا۔ ان کے مطابق اب بھی مسئلہ پرویز مشرف کے چار نکاتی خطوط پر حل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے خیال میں امریکا کو دونوں ملکوں کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ مذاکرات کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر کو سب سے اوپر رکھیں۔ دہلی اس وقت قابض قوت کے طور طریقوں سے مسئلہ حل کررہی ہے۔ مسئلہ موجود ہے اور اسی لیے کشمیر کے لوگ سڑکوں پر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مسئلے کو مستقل طور حل کرنے کی بات ہوگی تو پھر سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عسکریوں سے بھی بات کرنا ہوگی۔ جب آپ یہ قید لگاتے ہیں کہ فلاں سے مذاکرات کرنا ہیں فلاں سے نہیں تو مذاکرات کے خواہشمندوں کے لیے گنجائش باقی نہیں رہتی۔ رابن رافیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر کسی ایک ملک کو نہیں مل سکتا نہ مستقبل قریب میں سرحدوں میں ردوبدل کا کوئی امکان ہے، لیکن بھارت کو مسئلہ کشمیر کے حل میں کشمیریوں اور پاکستان کو شامل کرنا ہوگا۔

رابن رافیل کا شمار امریکا کی ان سنجیدہ فکر شخصیات میں ہورہا ہے جو آج بھی دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کو بھارت کی عینک سے نہیں دیکھتے بلکہ ایک متوازن سوچ کے تحت مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اس وقت امریکا نائن الیون کے اثرات کی زد میں ہے۔ انہی اثرات کے تحت امریکا کی پالیسیاں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ امریکا کی جنونیت کے اثرات مسئلہ کشمیر پر بھی پڑنے لگے ہیں۔ جنونیت کی اس لہر میں کشمیر جیسا مسئلہ دب رہا ہے۔ گزشتہ برسوں سے کشمیر کوبدترین حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر ایک عالمی طاقت کے طور پر امریکا نے اس مسئلے پر لب کشائی کی کوشش نہیں کی۔ حالاں کہ کشمیر کا مسئلہ دراندازی کا نہیں بلکہ بھارت اور کشمیرکی نوجوان نسل کے درمیان ہے اور اس کا تعلق تاریخ سے ہے۔ پاکستان اس مسئلے کا فریق بھی ہے اور کشمیریوں کا وکیل بھی۔ رابن رافیل جیسی سوچ اگر امریکا میں دوبارہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو تو امریکا کی ساکھ جنوبی ایشیا میں یوں خراب نہ ہو جس کا مظاہرہ آج ہورہا ہے اور پاکستان جیسا اتحادی بھی اب امریکا کا ہاتھ جھٹک رہا ہے۔

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.