! حاجی بنا تو کیا ہوا

! حاجی بنا تو کیا ہوا

ایک تعجب خیزواقعے کی یاد

٭ غلام نبی صدیقی

میں ایک قریبی ہمسایہ کو مبارک باد دینے کے لیے اُس کے گھر گیا۔ موصوف حج سے ہو آئے تھے۔ گھر کے صحن میں ان کو دیکھا چہل قدمی کررہے تھے۔ مجھے دیکھ کر خوش ہوئے، میں نے مبارک باد دے دی ، کہا …. ہاں میں ضرور اس کا مستحق ہوں، میں نے کہا ایسی کیا بات ہے،…. کہا ایک بہت بڑی تمنا جو میرے دل میں تھی اس سے فیض یاب ہوا…. ذرا تفصیل سے بتائیے کیا تمنا تھی؟ بولے میں مکے سے بغداد گیا۔ چار روز تک وہاں ٹھہرا۔ حضرت غوث پاک کے روضہ مبارک کے سامنے بیٹھ کر دل کی تمناپوری کرکے شاد ماں ہوا۔ پیشانی رگڑ رگڑ کر دل کی خوب بھڑاس نکالی۔ بس یہی ایک آرزو تھی جو بھر آئی…. میں نے کہا انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔ کہا کیوں؟ میں نے دُکھ بھرے الفاظ میں کہا۔ کیا مکہ شریف میں مسجد حرام اور خانہ کعبہ کی زیارت کی سعادت سے دل خوش نہیں ہوا؟ کہا ہوا،لیکن میری اصل تمنا جوتھی وہ بھر آئی۔ میں نے دل میں کہا بیچارے کا ایمان کھوکھلا ہے۔ یہ ایمان توحید شناس نہیں توکیسے یہ اپنے ایمان میں توحید کی لذت و حلاوت محسوس کرے گا۔ یہ مجھے مکان کے اندر آنے کو کہہ رہا تھا ۔ میں جس شوق سے آپ کے پاس آرہا تھا اس کو آپ کے صحن کی گھاس کھا گئی۔ اب چائے کی تمنا کیا؟ بولے اچھا آپ کو میری بات بری لگی، میں نے کہا دیکھو بھائی ! حج اسلام کے اہم ترین ارکان میں سے ہے، حج کے ذریعے سے انسان کے سارے گناہ مٹ جاتے ہیں ۔ حج کے دوران کیے جانے والے تمام اعمال آخرت کی زندگی کا توشہ بنا رہتا ہے اور یہی حج کا وہ مقصد ہے جو پورا ہوکر انسان کی دنیوی زندگی کا سہارا بنتے ہوئے حب الٰہی میں اس کا عشق بن کر خدا دوست بننے میں اس کا مددگار بنتا ہے۔
مسلمان کی عبادتوں میں حُبِ غیر اللہ کوئی ایمان نہیں بلکہ یہ شرک کی ایک عادت بن کر مسلمان کے اللہ پر ایمان کو کھا جاتا ہے اور یقینا آخرت کی زندگی میں اس کی خوشیوں اور تمناو¿ں کا سامان خسران سے دوچار ہوکر رہ جاتا ہے۔ یہ مسلمان کے ایمان کو دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر کھا جاتا ہے ۔ ایمان یہ نہیں ہے کہ آپ خدا کو بھی خدا کہیں لیکن غیر اللہ کو دل کی زبان دے کر اس کو یاد کریں۔ پیشانی اس کے سامنے رگڑ رگڑ کر اپنا ایمان خالصتاً اس کی یاد میں ثابت کرکے دل کی تمناو¿ں کو بھر لائیں۔
توحید اس کی زبان اور اس کا دل حج کی سعادت میں لبیک اللھم لبیک لاشریک لک لبیک کہہ کر اپنی ایمان شناسی میں جس حُب کو ظاہر کرتا ہے، وہی اصل میں ایمان کا خلاصہ ہے۔ اسی ایمان سے مسلمان کا دل ودماغ اور فکر و شعور پختہ سے پختہ تر ہوکر آخرت کی کامیابی کا امیدوار بن جاتا ہے۔
اگر ایمان کھوٹا ہے تو کامیابی کی تمام ضمانتیں مفقود نظر آئیں گی۔ قرآن میں آیا ہے کہ اللہ زندگی اور موت دے کر اصل میں انسان کو آزماتا ہے کہ کون صالح اعمال کے ساتھ زندگی گذار کراپنے رب کی رضا اور خوشنودی کا طالب بنتا ہے۔
میرے نزدیک حج کا جو مقصد ہے، وہ اللہ کی رضا کے لیے عمل کے ساتھ وہی دعویٰ ہے جو ایمان کی زبان اور دل کے یقین کے ساتھ انجام لاتاہے۔اسی ایمان کی خوشگواری سے مسلمان…. مسلمان ہے ورنہ ”دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے“میں جس شخص کو مبارک باد دینے کے لیے گیا تھا،ا س کے گھر سے واپس آتے وقت سوچ رہا تھا کہ بچارے کا ایمان زاویہ¿ معکوس کی طرح سکڑا ہوا ہے۔خدا خیر کرے، ایمان کو بچانے کا واحد ذریعہ اللہ کی پہچان اور فقط اسی ذات کے ساتھ اپنے حُب کا اظہار کرنا ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰة اور حج اسی حُب اور ایمان باللہ پر پوری زندگی گذارنے کا عہد نامہ ہے۔
اپنا ایمان پہچاننے کے لیے روزانہ ایک مشق کرتے ہوئے دن کی پانچ نمازیں اور سنت رسولﷺ کی محبت میں وہ سارا عمل بھی ظاہر کرنا ہے جو اللہ کے رسول اپنے اعمال میں جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ اعمال اللہ کی یاد کو ایک طرح کا وہ اظہار ہے جسے اللہ زیادہ پسند فرماتا ہے اور یہی دراصل اپنے ایمان کو پڑھنے اور جانچنے کا وہ میٹر ہے جو سائنٹفک اعداد کے ساتھ ایمان کی اصلیت کے لیے نشاندہی کرتا ہے۔

٭٭٭٭٭

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.