دعوت کے کام میں اعتدال قائم ہونا چاہیے… زعیم جماعت محمد اسداللہ بٹ کا انٹرویو

دعوت کے کام میں اعتدال قائم ہونا چاہیے… زعیم جماعت محمد اسداللہ بٹ کا انٹرویو

تحریک اسلامی جموں وکشمیر کی دعوتی و سیاسی جدوجہد تاریخ کشمیر کا اہم ترین باب ہے۔ جب ہم اس تحریک اور اس سے جڑے افراد کے ماضی کو کھنگال لیتے ہیںتو اُن کے عظیم کارناموں، ایمانی غیرت، اللہ پر توکل ، دعوت دین کے ساتھ والہانہ لگاؤ کو دیکھتے ہوئے ہر صاحب ایمان کا سینہ کھل جاتا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کے حدود و قیود میں چند سعید روحوں نے انبیائی مشن کی آبیاری کرتے ہوئے اس راہ میں سب کچھ لٹا دیا ہے، دن رات ، ہر پل اور ہر لمحہ اُن پر جماعت اور جماعتی کام کا بھوت سوار رہتا تھا۔اُنہوں نے ننگے بدن، بھوکے پیٹ اور بغیر کسی خوف اور پریشانی میں مبتلا ہوئے شہر و دیہات سفر کرکے اللہ کے دین کی دعوت کو عام کیا۔ اس راہ میں آنے والی ہر مشکل کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ صبر و ثبات کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ دین کی راہ میں آنے والی ہر مصیبت کو گلے سے لگاکر سکون محسوس کیا اور ہر آن اللہ کی رضا پانے کی فکر میں ریاست کا کونا کونا چھان مارتے تھے۔ پہاڑوں اور بیابانوں میں سرگرداں رہتے تھے۔تحریک اسلامی کے ساتھ ابتداء میں جڑ جانے اور پوری جانفشانی کے ساتھ کام کرنے والے بزرگوں میں بیشتر اس جہانِ فانی سے رحلت کرچکے ہیں البتہ ایک اچھی خاصی تعداد ابھی بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ چونکہ یہ بزرگ ہمارا سرمایہ ہیں، اِن کے تجربات سے آنے والی نسلیں مستفید ہوسکتی ہیں۔ آج ہم ایسے ہی ایک بزرگ کھرم بجبہاڑہ کے رکن جماعت ، ماہر تعلیم اور جماعت میں امیر حلقہ سے لے کر رکن شوریٰ تک مختلف مناصب پر کام کرنے والے محترم محمد اسد اللہ بٹ صاحب سے کی ایک ملاقات کا خلاصہ قارئین ’’اذان‘‘ کی خدمت پیش کررہے ہیں۔
٭…تعارف:
میرا نام محمد اسد اللہ بٹ ہے ، میں ضلع اسلام آباد کے تحصیل بجبہاڑہ کی ایک معروف بستی کھرم سے تعلق رکھتا ہوں۔ تعلیم و تدرس سے میرا تعلق رہا ہے ، جماعت سے وابستہ ہونے کے بعد اپنے اس پیشے کو دعوت دین کی سربلندی کے لیے ایک ذریعہ بنالیا تھا۔ تحریک اسلامی میں بھی امیر حلقہ، امیر تحصیل سے لے کر رکن مرکزی مجلس شوریٰ تک کی بہت ساری ذمہ داریاں نبھاتا رہا۔۱۹۶۸ء؁ سے ۲۰۱۱ء؁ تک کبھی ضلعی شوریٰ تو کبھی مرکزی مجلس شوریٰ کا ممبر رہا ہوں۔ علاقہ بجبہاڑہ میں مرکز اسلامی کو قائم کرنے میں بھی اپنی خدمات انجام دی ہیں۔
٭…جماعت کا تعارف کیسے ہوا؟
۱۹۵۹ء؁ میں، میں ہائی اسکول بجبہاڑہ میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہاں غلام مصطفی رفیقی صاحب استادتھے، جو جماعت اسلامی کے رکن ہونے کے علاوہ امیر حلقہ بجبہاڑہ بھی تھے۔ موصوف اسکول میں اسلام کی تعلیمات اور دعوت پر کھل کربات کرتے تھے۔ اُنہوں نے بجبہاڑہ میں ایک شبینہ درسگاہ قائم کیا تھا جہاں وہ ’’تفسیر تفہیم القرآن کی روشنی میں‘‘ کے عنوان کے تحت قرآن کی کلاس لیتے تھے۔میںاور میرے ہم جماعت پھوپھازاد بھائی شہید محمد سلطان نے یہ کلاس جوائن کرلیا۔یہاں ہمیں جماعت کا تعارف حاصل ہوا۔بجبہاڑہ میں ہی محترم نور دین ناظمی صاحب بھی رہتے تھے ، وہ بھی رکن جماعت تھے۔اُن کے گھرپر شام کو بیٹھتے تھے، وہاں حکیم غلام نبی مرحوم صاحب بھی آتے تھے، اُن سے بھی وہاں ہی ملاقات ہوئی اور یوں جماعت اسلامی کے ساتھ میرا زندگی بھر کا تعلق قائم ہوگیا۔
٭…سالانہ اجتماع میں شرکت:
۱۹۵۹ء؁ میں ہی نواب بازار میں جماعت کاکل ریاستی سالانہ اجتماع منعقدہوا۔میں بھی اُس اجتماع میں شریک ہوا۔ اجتماع کی جن باتوں نے مجھے بے حد متاثر کیا اُن میں ایک مولانا محمد امین شوپیانیؒ کا رقت آمیز خطاب تھا، دوسرا میں نے دیکھا کہ اجتماع میں میزبانی کے فرائض خود امیر جماعت مولانا سعد الدین ؒصاحب اور مولانا حکیمؒ صاحب انجام دے رہے تھے۔ دونوں بزرگ شرکاء اجتماعات کو کھانا پیش کررہے تھے۔اس اجتماع میں ریاست بھر سے پہلے مرحلے پر۳۱۳؍ لوگ شریک ہوئے پھر دوران اجتماع مزید چار افرادکا اضافہ ہوا ، اس طرح تعداد ۳۱۷؍تک پہنچ گئی۔ جب اجتماع اختتام پذیر ہوا تو میں نے شرکائے اجتماع کو باتیں کرتے ہوئے سنا ، وہ کہہ رہے تھے کہ گزشتہ برس کے سالانہ اجتماع میں صرف سو لوگ شامل ہوئے اور اس برس یہ تعداد بدر کے صحابہؓ کی تعداد تک پہنچ چکی ہے،یعنی یہ اجتماع انقلاب کی نوید لے کر آیا۔سب لوگ اجتماع میں شرکا کی تعداد کو نیک شگون کے طور پر لے رہے تھے۔اس اجتماع کے بعد میں ایک ہفتے تک روتا رہا، مجھ پر رقت طاری تھی، میں اجتماع کے روح پرور مناظر کو یاد کرتے کرتے روتا تھا۔ ایک ہفتے کے بعد میرے حواس بحال ہوگئے۔ اِسی برس مولانا احرار صاحب کھرم تشریف لائے اور یہاں حلقہ جماعت تشکیل دیا گیا۔
٭…مولانا نور صاحبؒ ترالی سے ملاقات:
جماعت میں باضابطہ شمولیت اختیار کرلینے کے بعد میںایک دن ایڈوکیٹ شہید محمد سلطان کے ہمراہ مولانا نور صاحب ترالی کے پاس ملاقات کے لیے گیا۔ مولانا موصوف پہلے پہل ہم سے عام لوگوں کی طرح پیش آئے لیکن جب ہم نے اُن سے کہا کہ ہم جماعت اسلامی سے وابستہ ہوچکے ہیں تو وہ ایک دم ہماری جانب متوجہ ہوگئے اور ہم سے کہا کہ آپ نے جماعت کے لٹریچر میں سے کیا پڑھا ہے۔ہم نے بہت ساری کتابوں کا نام لیا اور اُن میں ’’رسالہ دینیات‘‘ بھی شامل تھی۔ مولانا نے جب ’’رسالہ دینیات ‘‘ کا نام سنا تو چونک کر اُٹھ کھڑے ہوگئے اور دوسرے کمرے سے دودھ کے دو گلاس لاکر ہم کو پیش کیے اور کہا:’’ میرے نزدیک قرآن و سنت کے بعد دین سمجھنے کے لیے جو بہترین کتاب ہے …وہ رسالہ دینیات ہی ہے۔‘‘اُن کی اس بات سے ہمارے پہلے سے ہی بلند حوصلے مزید بلند ہوگئے۔
٭…جب میں رکن بنا!
غالباً۱۹۶۸ء؁ کی بات ہے مولانا سعد الدین ؒ صاحب جیل میں تھے اورحکیم غلام نبیؒ صاحب پہلے قائمقام امیر جماعت بنائے جاتے ہیں پھر سال کے مکمل ہوجانے پر اور مولانا سعد الدینؒ کی عدم موجودگی کی وجہ سے امیر جماعت منتخب ہوجاتے ہیں،جس دن حکیم صاحب امیر جماعت منتخب ہوجاتے ہیں اُسی دن کھرم کے رہنے والے چار افراد کو رکنیت حاصل ہوئی، اُن میں ایک میں بھی تھا۔ دوسرے لوگ گھر چلے گئے لیکن میں سرینگر میں ہی رکا رہا اور حکیم صاحبؒ کے سامنے گڑگڑاتا رہا کہ مجھے رکن جماعت نہ بنایا جائے کیونکہ میں اس قابل نہیں ہوں۔ اُسی برس مولانا غلام نبی نوشہری صاحب کو بھی رکنیت کے منصب پر فائز کردیا گیا تھا ، اُنہوں نے بھی میری طرح معذرت کی تھی کہ اُنہیں رکن نہ بنایا جائے لیکن نظم جماعت نے اُن کی معذرت کو قبول نہیں کیا۔ مجھ سے حکیم صاحبؒ نے کہا کہ میں بھی امیر جماعت کے منصب کے قابل نہیں ہوں جب مجھے اس کے باوجود امیر جماعت بنایا گیا تو آپ کو بھی رکن جماعت بننے پر اعتراض نہیں ہوناچاہیے۔
٭…جب حکیم صاحب نے امارت لوٹا دی!
مولانا حکیم صاحبؒ امیر جماعت منتخب ہوئے تھے۔ مولانا سعد الدین صاحب جب جیل سے رہا ہوکر واپس لوٹ آئے تو میری موجودگی میں حکیم صاحب نے مولانا سعد الدین ؒصاحب سے کہا کہ اب آپ آگئے ہیں اس لیے امارت کو سنبھال لیجئے۔ مولانا سعدالدین ؒصاحب نے حکیم صاحب ؒ سے مخاطب ہوکر مسکراتے ہوئے سوال کیا کہ کیا آپ قائمقام امیر جماعت ہیں یا پھر ارکان شوریٰ نے آپ کو منتخب کیا ہے؟ حکیم صاحبؒ نے درجواب کہا کہ میں منتخب امیر جماعت ہوں۔ مولانا سعد الدینؒ صاحب نے اُنہیںکہاپھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ میں اس منصب کو سنبھال لوں۔ اس پر حکیم صاحبؒ نے اُن سے کہا کہ ہمارے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ:’’یہاں کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ اہل کو اہل ترکے لیے جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔‘‘اس پر مولانا سعد الدین صاحبؒ نے کہا کہ یہ کون بتائے گا کہ میں اہل تر فرد ہوں۔ حکیم صاحبؒ نے اُن سے کہا کہ اس بات کا فیصلہ شوریٰ کرے گی۔ جب بات شوریٰ میں رکھ دی گئی تو شوریٰ نے مولانا سعد الدین ؒصاحب کو امیر جماعت منتخب کرلیا۔
٭…آرونی کا پہلا دس روز ہ تربیتی اجتماع:
آرونی میں جماعت اسلامی کاپہلا دس روزہ تربیتی اجتماع منعقد ہوا، اُس میں زیادہ لوگ شامل نہیں تھے۔ اجتماع میں مربی مرحوم مولانا سلیمان صاحب ؒساکن زولورہ سوپورتھے۔ دسویں دن سب ارکان نے ایک ایک کرکے جماعت میں اپنی شمولیت کی رو داد بیان کی۔ مجھے یاد ہے کہ سلیمان صاحبؒ نے اپنی داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جماعت میں شامل ہونے سے قبل بہت دفعہ امیر جماعت مولانا سعد الدین صاحبؒ کے خطاباب سنے تھے۔ ایک روز میں نے اُن سے کہا کہ مولانا آپ آکر ہمارے علاقہ کی مسجد میں خطاب کریں۔ وہ مان گئے۔ دن مقرر ہوا، خطاب نمازِ مغرب سے عشاء تک تھا۔ مغرب کی اذان کو پانچ منٹ رہ گئے ہوں گے کہ مولانا سعد الدین صاحب
ؒ مسجد میں تشریف لائے۔ کافی تھکے تھکے لگ رہے تھے۔ نماز مغرب ادا کرنے کے بعدپانچ منٹ تک بیٹھ گئے پھر اُٹھ کر خطاب کیا۔ عشاء کی نماز سے قبل بھی تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ گئے۔ نماز کے بعد پھر بیٹھ گئے اور اُس کے بعد سنت اور وترکی نماز ادا کی۔ مسجد سے ہمارے گھر تک ایک کلو میٹر کا فیصلہ تھا۔ مسجد سے گھر تک مولانا سعد الدین صاحبؒ تین جگہوں پر تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے سستانے بیٹھ گئے۔جب مولانا ہمارے گھر میں داخل ہوگئے اور ہم نے اُن کے سامنے رات کا کھانا رکھ دیا تو موصوف پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ میں حیران زدہ تھا اور اُن کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ میں نے اُن سے کہا کہ مولانا کیا بات ہے آپ کیوں رو رہے تھے تو اُنہوں نے جواب میں کہا کہ گزشتہ تین دنوں سے ہمارے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں صبح نماز فجر کے ساتھ ہی یہاں کے لیے بھوکے پیٹ روانہ ہوگیاتھا،میری جیب میں کرایہ کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں تھا۔ کہیں ٹانگے پر تو کہیں پیدل میں چلتا ہوا شام کو یہاں پہنچ گیا، بھوکا بھی تھا اور تھکا ہوا بھی اور اب میرے سامنے کھانا آگیا، کیا پتہ میرے گھروالوں نے کھایا بھی ہوگا یا نہیں، اسی لیے میری آنکھوں نے آنسوچھلک پڑے ہیں۔سلیمان صاحبؒ نے کہا کہ سعد الدین صاحب ؒ کی اِن باتوں اور اُن کے اِن حالات نے مجھ جماعت میںشامل ہونے پر راضی کرلیا۔
٭…حکومت ِ وقت نے نوکری سے معطل کردیا:
میں نے کھرم کی جامع مسجد میں ’’حسنیت اور یزدیت‘‘ کے عنوان سے خطاب کیاتھا ۔ وہاں حکومت نواز سیاسی ورکروں نے میرے اس خطاب کے ردعمل میں میٹنگ طلب کی اور کہا کہ اگر اِنہوں نے اسی طرح کے دو چار مزید خطابات کیے تو یہاں سب لوگ جماعت اسلامی کے ساتھ جڑ جائیں گے۔ اُنہوں نے میری شکایت حکومتی کارندوں کے سامنے کی۔ ایک ماہ بعد ڈائریکٹر ایجوکیشن کی جانب سے مجھے وجہ بتاؤ نوٹ موصول ہوئی جس میں مجھ سے کہا گیا کہ کیا میں جماعت سے وابستہ ہوں؟ میں نے مولانا سعد الدینؒ صاحب کو یہ نوٹس دکھائی تو اُنہوں از خود اپنے ہاتھوں سے اس کا جواب لکھا جس میں یہ اعتراف تھا کہ میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوں اور اس کا رکن بھی ہوں۔ کچھ ہی وقت کے بعد ایمرجنسی نافذ ہوئی ۔ بہت سارے سرکاری ملازمین کے ساتھ مجھے بھی نوکری سے معطل کردیا گیا۔ گیارہ ماہ بعدمیرے سوا دیگر تمام ملازمین کو بحال کردیا گیا ۔میں سرینگر روانہ ہوگیا تو وہاں قاری سیف الدینؒ صاحب کو اپنی رو داد سنائی ، اُنہوں نے درجواب کہا کہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ اب جماعت اسلامی کے رکن بن جائیں۔ موصوف نے مجھ سے کہا کہ میںخود سوچ سمجھ کر جماعت کا رکن بن چکا ہوں،اگر میرا سب کچھ اس راہ میں لٹ بھی جائے گا تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہوگی کیونکہ میں اس راہ کی ہر سختی کو جھیلنے کے لیے ذہنی طور تیار ہوں۔ آپ اگر تیار نہیں تھے تو رکن نہیں بننا چاہیے۔قاری صاحب کے جواب سے مایوس ہوکر میں اگلے روز سیکریٹریٹ کی جانب روانہ ہوا۔ راستے میں محترم گیلانی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے علیک سلیک کے بعد پوچھا کہ آپ مغموم دکھائی دے رہے ہیں کیا بات ہے؟ میں نے اپنی معطلی کی بات بتائی تو گیلانی صاحب نے کہا کہ کیا آپ نے سوچ سمجھ کر یہ راستہ اختیار نہیں کیا تھا؟ میں نے کہا جی ہاں۔ تو انہوں نے کہا کہ پھر کیوں پریشان ہو؟ میں نے جواب میں کہا کہ میں سمجھتا تھا کہ آزمائش صف اول کے لوگوں کے لیے ہوتی ہے۔ اس پر محترم گیلانی صاحب نے کہا ، اللہ کی قسم، اللہ کی قسم، اللہ کی قسم جماعت اسلامی کی پوری شوریٰ آپ کو صف اول کے لوگوں میں شمار کرتی ہے۔ گیلانی صاحب کی اس بات نے میرا ایمان تازہ کردیا اور مجھے نوکری جانے کا کوئی رنج و ملال نہ ہوا۔ کچھ عرصے بعد میری نوکری اس شرط کے ساتھ بحال کردی گئی کہ میں ہمیشہ بجبہاڑہ کے حدود سے باہر ہی تعینات رہوں ۔مجھے قمر کپرن اور پھر کھریو شار تبدیل کیا گیا۔ قمر کپرن اور کھریو شار میں میرے جانے کے بعد وہاں جماعت کے حلقے قائم ہوئے۔ اس پر مفتی محمد سعید نے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو مشورہ دیا کہ وہ مجھے اپنے ہی گاؤں میں تعینات کردیں، کیونکہ یہ بندہ جہاں بھی جاتا ہے وہاں جماعت کا حلقہ قائم کرلیتا ہے۔اس کے بعد سابقہ آرڈر کو منسوخ کرکے مجھے اپنے گاؤں کھرم میں تعینات کردیا گیا۔
٭…۴؍اپریل ۱۹۷۹ء؁ کو جب میرا مکان نذر آتش کردیا گیا!
۴؍اپریل ۱۹۷۹ء؁ کو ایک منظم سازش کے تحت کشمیر میں جماعت اسلامی کو نشانہ بنایا گیا۔اُس دن پہلے درجن بھر افراد میرے گھر پرآگئے اور مجھ سے مطالبہ کرنے لگے کہ آپ کے ذاتی کتب خانے میں جتنے بھی تفاسیر موجود ہیں وہ ہمیں دے دیجئے ہم اُن کو نذر آتش کردیں گے۔ میں نے اس مجموعے میں شامل لوگوں سے کہا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو کل روز محشر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا جواب دوں گا۔میں نے اس مجموعے سے کہا کہ اگر آپ لوگوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اس کے لیے سب سے پہلے آپ کو میری لاش پر سے گزرنا پڑے گا۔یہ لوگ چلے گئے۔ میں اور محمد سلطان نماز عصر سے کچھ دیر پہلے گاؤں سے نکل پڑے۔ عصر کا وقت ہوا ، ہم گاؤں سے باہر ایک جگہ پر بیٹھے ہی تھے تو سینکڑوں افراد پر مشتمل جلوس میرے گھر پہنچ گیا۔ اُنہوں نے میرے مکان کو نذر آتش کردیا۔ اُدھر میرا مکان اور اُس میں شامل میرا کتب خانہ جل رہا تھا ، اِدھر میں نماز عصر کے لیے کھڑا تھا۔ شہید محمد سلطان نے مجھ سے کہا کہ نماز بیٹھ کر پڑھیں ، اگر اِنہوں نے دیکھ لیا تو ہماری سلامتی نہیں، لیکن میرے ایمان نے اس کی اجازت نہیں دی ، میں نے کھڑے ہو کرنماز ادا کی۔ تین بیٹیوں کے بعد جس دن میرا بیٹا ہوا اُس دن مجھے اُتنی مسرت حاصل نہیں ہوئی جتنی مسرت مجھے دین کی راہ میں مکان جلنے کے بعد حاصل ہوئی ہے او ر یہ مسرت اُس وقت دوبالا ہوئی جب جماعت اسلامی ہند کے مولانا سید حامد علی اور سیّد حامد حسین نے میرے گھر آکر رقت آمیز دُعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے التجا کہ وہ اُنہیں روز محشر میں تحریک اسلامی جموں وکشمیر کے مخلص کارکنوں کے ساتھ کھڑا کرے۔
٭…اُن دنوں کا دعوتی جذبہ دیدنی تھا!
ابتدائی دنوں میںہرفرد کا دعوتی جذبہ اور کارکنوں کا کام کے تئیںلگائو قابل دید تھا۔۱۹۶۸ء؁ کی بات ہے، میں نوکری بھی کرتا تھا،دن میں ۱۵؍نوجوانوں کو الگ الگ اُن کے گھر جاکر قرآن بھی پڑھاتا تھا، دعوتی خطابات بھی کرتا تھا، شبینہ درسگاہ میں بچوں کو بھی پڑھا تا تھا۔ اس کے باوجود تڑپ رہتی تھی کہ کسی نہ کسی نئے فرد سے ملاقات کرکے اُن تک جماعت کی دعوت پہنچائی جائے۔جماعت سے وابستہ لوگ ہر دم بے چین رہتے تھے کہ کب وہ کسی نئے فرد کو اپنے کاروان میں شامل کریں گے اور کب اُن کی دعوت سے پورا سماج مستفید ہوجائے گا۔
٭…جماعت کاآئندہ لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟
میرے خیال میں جماعت کی پالیسی کے حوالے سے جتنے بھی بڑے فیصلے لینا مقصود ہوںاُن میں۷۵؍فیصد ارکان کی رضامندی لازمی ہونی چاہیے۔ جماعت کا کوئی بھی قدم ردعمل میں نہیں ہونا چاہیے یا کسی سے متاثر ہوکر اور حالات کی رو میں بہہ کر منصوبہ بندی نہیں ہونی چاہیے۔ جماعت جو بھی منصوبہ بنائے اُس پر خوب ہوم ورک ہونی چاہیے۔ دعوت کے کام میں جذباتیت کا عنصر غالب نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہر مرحلے پر اعتدال برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔اقامت دین کی اس تحریک کو عام کرنے اور اس کے ساتھ عوام الناس کو جوڑنے کے لیے نئے نئے اقدامات ہر سال ہونے چاہیے۔ اقدام ہوں گے تبھی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مولانا سعد الدینؒ خود سوچ سمجھ کرنئے نئے منصوبوں کی ابتداء کرتے تھے۔ ایک سال کے سالانہ اجتماع میں جو اُنہوں نے خطبہ صدارت ’’ خدا پرستی، انسان دوستی اور آخرت پسندی‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ، یہ پھر ہمیشہ کے لیے جماعت کا سلوگن بن گیا۔ اِسی طرح اگلے سال’’ امر ، اطاعت اور تنظیم‘‘ کے عنوان کے تحت صدارتی خطاب کیا، یہ بھی جماعت کی تربیت کا سلوگن بن گیا۔اِس طرح وہ ہر سال کچھ نیا لے کر آتے تھے ۔آج بھی جماعت کو حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنی فکر کو پروان چڑھانے کے لیے نئے اقدامات کرنے ہوں گے۔یک سالہ اور دوسالہ منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ پچیس اور تیس سالہ منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگلے پچیس برس میں جماعت کون سے نشانے حاصل کرے گی اس کے لیے منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔تعلیم کے میدان پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.