رضوانہ قائد
کہتے ہیں کہ انسانوں کے جسموں، علاقوں، برادریوں، زبانوں اور تہذیبوں کے رنگ مختلف ہوتے ہیں مگر آنسوؤں کا رنگ ہر انسان کا ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ ہر اختلاف کی الگ پہچان ہے مگر آنسو کی پہچان صرف ایک ہی ہے؛ اور وہ ہے دکھ اور کرب کا احساس۔ اسی دکھی احساس کا ایک عنوان ایک مظلوم عورت ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہے جس کے بارے میں عالمی میڈیا کا کہنا ہے: ’’مسلمان بیٹی جو اپنے ہی حکمرانوں کے ذریعے غدار قرار پائی۔‘‘
یہ کربناک جملہ ڈاکٹر عافیہ کی وہ داستانِ الم ہے جس پر 23 ستمبر 2010 کو عالمی عدالت میں دنیا کی پہلی جھوٹی مہرِ تصدیق ثبت کی گئی؛ جب انصاف کے نام نہاد علمبردار امریکہ کی عالمی عدالت میں انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان کے مقررکردہ وکلاء کی سازش کے تحت جرم ثابت کیے بغیر 86 برس کی سزائے قید سنادی گئی۔ جج نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا: ’’ڈاکٹر عافیہ جو پاکستانی شہری ہے، اس پر یہ الزام ہے کہ اس نے چھ امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کے ارادے سے بندوق اٹھائی ان ہر گولیاں چلائیں۔ لیکن کسی امریکی فوجی کو نقصان نہیں پہنچا جب کہ ڈاکٹر عافیہ فوجیوں کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہو گئیں۔ باوجودیکہ عافیہ کے خلاف کسی قسم کے ثبوت موجود نہیں، پاکستانی وکلاء کے دلائل کی روشنی میں عافیہ کو 86 برس قید کی سزا دی جارہی ہے۔‘‘ انصاف کے اس فیصلے کے خلاف عدالت میں ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے بلند ہوئے اور وہاں موجود ہمدرد عیسائی، یہودی اور مسلمانوں نے مظلوم عافیہ سے یکجہتی کا اعلان کیا: ’’آج عالمی عدالت میں امریکی انصاف کا قتل ہو گیا۔‘‘
مشہور امریکی ریسرچ اسکالر اسٹیفن لینڈمین نے اس سزا پر کہا ’’عافیہ کو مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے۔‘‘
یقیناًَ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عافیہ ہی کے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟ یہ وہی ڈاکٹر عافیہ ہے جس کے بارے میں معروف امریکی دانشور نوم چومسکی نے کہا تھا: ’’یہ جس جگہ جائے گی، سسٹم تبدیل کردے گی۔‘‘
ڈاکٹر عافیہ کی زندگی واقعی انقلابی سوچ کی حامل تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کا تعلق پاکستان کے مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے ہے۔ اس علم دوست خاتون نے امریکہ کی اعلیٰ جامعات ایم آئی ٹی اور برینڈیز سے گریجویشن اور پی ایچ ڈی کیا۔ ان کے مقالے کا موضوع ’’ابتدائی عمر میں بچوں میں ذہنی نشوونما‘‘ تھا۔ وہ ایک ماہرِتعلیم ہیں۔ دین سے محبت کے باعث انہوں نے قرآن کی تعلیم کو اپنی قابلیت کا حصہ بنایا اور دورانِ تعلیم ہی بصد شوق قرآنِ پاک حفظ کیا۔ تعلیم کے ذریعے دنیا میں مثبت تبدیلی ان کا خواب تھا۔ ان کے ساتھ پیش آنے والے حادثات ان خوابوں کی تعبیر میں مانع رہے، بلکہ آج تک ہیں۔
ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو 2003 میں حکمرانِ وقت جنرل پرویز مشرف کے حکم پر کراچی سے تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر کے بگرام ایئربیس افغانستان لےجایا گیا۔ یہاں پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں قید رکھا گیا اور ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ برطانوی نَومسلم صحافی یون رڈلے نے یہاں موجود قیدی نمبر 650 کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف عالمی میڈیا کے سامنے کیا۔ انہوں نے عافیہ پر امریکی فوجیوں کے شرمناک اور دل دہلادینے والے مظالم کا انکشاف بھی کیا۔ اس کے بعد اس خاتون کے خلاف سازشی مقدمہ تیار کیا گیا جس کے مطابق یہ کمزور اور زخموں سے چُور خاتون ایم 44 بندوق اٹھا کر امریکی فوجیوں پر حملے کی غرض سے فائر کر دیتی ہے۔ فائر اس ڈرامائی انداز سے خطا ہوتا ہے کہ آس پاس در و دیوار میں کہیں گولی کا نام و نشان نہیں۔ ایک فوجی قریب سے گولی مار کر عافیہ کو زخمی کر دیتا ہے مگر وہ بچ جاتی ہیں اور 2009 میں امریکہ منتقل کردی جاتی ہیں۔
ان پر امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ نام نہاد مقدمہ چلا کر عدالت میں جرم ثابت کئے بغیر 86 سال قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ عافیہ اپنا فیصلہ اللہ کے حوالے کرنے اعلان کرتی ہیں۔ قید کی سزا کے طور پر انہیں صرف 6 فٹ لمبی اور 6 فٹ چوڑی ایک تنگ و تاریک کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔ جسمانی تشدد اور برہنگی کی اذیت، قرآن کی بےحرمتی پر لباس دینے کی شرط اور ایسے درجنوں مظالم کا شکار ہونے کے باوجود ان کا عزم قوی تر ہے۔
جرم بے گناہ کی پاداش میں 23 ستمبر 2017 کو ڈاکٹرعافیہ کی ناانصافی پر مبنی اس 86 سالہ سزا کے 7 سال مکمل ہوگئے ہیں جبکہ 2003 سے اب تک 14 سال اور 6 ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو 2010 میں مقدمے کی کارروائی کے دوران زخمی حالت میں امریکی عدالت میں پیش کیا جاتا رہا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بھری عدالت میں جج کو مخاطب کرکے کہا تھا: ’’میں پاگل نہیں ہوں! میں ایک مسلمان عورت ہوں۔ مجھے مرد فوجی زبردستی برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور میرے قدموں میں قرآن ڈالا جاتا ہے۔‘‘
میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ امریکی جیلوں میں خواتین قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتا ہے۔ Strip Searching کے نام پرخواتین کی تذلیل اور تشدد عام سی بات ہے. ٹیکساس کی جس جیل میں ڈاکٹر عافیہ کو رکھا گیا ہے اسے House of Horror (دہشت کا گھر) کہا جاتا ہے۔ مارچ 2017 کے اوائل میں ہیوسٹن، ٹیکساس میں پاکستانی قونصلیٹ کی خاتون قونصلر عائشہ فاروقی کی امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ کی حالت زار دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں جس کی تفصیلات پاکستانی ذرائع ابلاغ میں آچکی ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کی 14 سالہ طویل مدت ان کی بے گناہی کی بنیاد پر ہے۔ مشرف دور کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری درج ذیل الفاظ میں عافیہ کی معصومیت اور اپنی غلطی کا اعتراف کرچکے ہیں:
سابقہ اور موجودہ ادوارِ حکومت میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے کئی مواقع میسر آچکے ہیں جنہیں انتہائی بے حسی کے ساتھ ضائع کیا گیا۔ عافیہ کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ عزم و حوصلے کی کمی رہی ہے۔ ان کے اہلِ خانہ اس مظلوم بیٹی کےلیے انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ عدالتی فیصلے میں انہیں دی جانے والی سزا کو ’’سیاسی سزا‘‘ کہا گیا ہے۔ اس تعلق سے اس معاملے کو سیاسی مقدمے کے طور پر لڑا جانا چاہیے تھا مگر سیاست کے ایوانوں میں اس کیس کےلیے کوئی معاملت یا سودا کاری نہ کی جاسکی۔ پرویزمشرف نے ان کی گرفتاری کے عوض ڈالرز وصول کئے اور اپنی کتاب میں اس کا شرم ناک تذکرہ بھی کیا۔ آصف علی زرداری نے امریکہ سے آئی ہوئی، اس کیس کی اہم دستاویز پر صرف اس وجہ سے دستخط نہ کئے کیونکہ، ان کے بقول، یہ عافیہ کو بھیجنے والوں کا کام ہے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے سلسلے میں اہم ترین کوشش کو ناکام بنادیا۔ حسین حقانی کا کردار اس سلسلے میں نہایت سفاک ہے۔ انہوں بیوہ اور غمزدہ ماں کے ساتھ، ان کی بیٹی کو واپس لانے کا جھوٹا مذاق کیا۔ حکومت سے پیسے بٹورنے کے باوجود عافیہ کو ٹارچر سیل کے حوالے کیا۔
عدم تعاون کے حکومتی رویّوں سے بددل ہوکر ڈاکٹر عافیہ کے اہلِ خانہ نے ان کی رہائی کی کوششوں کو ایک تحریک کی صورت میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ عافیہ کی رہائی کی حالیہ اہم ترین کوشش حکومتی تعاون سے ہی مشروط تھی۔ اس کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما صدارتی اختیارات کی نئے صدر کو منتقلی سے قبل کچھ قیدیوں کو آزاد کرنا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں صدر یا وزیرِاعظم کا دستخط شدہ خط امریکی صدر کو مطلوب تھا۔ مگر تمام تر عوامی دباؤ کے باوجود حکومت نے اپنے مذموم مقاصد کے پیشِ نظر اس کام کو اہمیت نہ دی۔
وقت گزرتا رہا… اور بالآخر اوباما کی مدتِ صدارت کے خاتمے پر عافیہ کی رہائی کے روشن ترین امکانات معدوم کردیئے گئے۔ بیوہ ماں کی آنکھوں میں اُمید کے جگنوؤں کی جگہ آنسوؤں نے لے لی۔
سوچنے کی بات ہے! سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، سابق وزیرِ اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس سندھ سید سجّاد علی شاہ کے مغوی رشتہ دار اور قرابت داران بحفاظت بازیاب ہو چکے ہیں۔ قوم نے بچشمِ خود دیکھا کہ ان سیاسی اور اعلیٰ عہدے داروں کی اولادوں کی گھر واپسی کےلیے پوری انتظامیہ اور ایجنسیوں نے کس مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ کیا اس لئے کہ وہ حاکموں کے بیٹے تھے؟ جب کہ عافیہ ایک بیوہ ماں کی بیٹی ہے جس کے وسائل بھی محدود ہیں!
امریکی جاسوس اور قاتل ریمنڈ ڈیوس کے ذریعے عافیہ کی رہائی کی ڈیل ہوسکتی تھی لیکن حکومت نے یہ قیمتی موقع بھی ضائع کیا اور اس فرد کو پانچ قتل کرنے کے بعد بھی باعزت طریقے سے امریکہ رخصت کیا گیا۔ پھر ریمنڈڈیوس ہی کیا، کئی اور جاسوس بھی جرم کرکے حکومتی سرپرستی میں اپنے وطن روانہ کیے گئے۔ اب ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بھی خاموشی سے امریکہ بھیجنے کی منصوبہ بندی ہے۔
نہایت دکھ کے ساتھ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ عافیہ کی رہائی کا کوئی موقع ملتا بھی ہے تو ہمارے غیرت سے عاری حکمران، قومی غیرت کی ڈالرز کے ذریعے سودے بازی کو ترجیح دیتے ہیں۔ امریکی سینیٹر کے الفاظ کہ پاکستانی تو ’’چند ڈالروں کے عوض اپنی ماں تک کو بھی فروخت کرسکتے ہیں‘‘ کیا ہمارے اندازِ حکمرانی کی شرمناک تعریف نہیں؟
سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے ڈاکٹر عافیہ کی والدہ سے اپنی حکومت کے ابتدائی 100 دنوں میں عافیہ کی واپسی کا وعدہ کیا تھا۔ ان کی نااہلی کی رسوائی میں ایک بیوہ ماں سے وعدہ خلافی بھی شامل ہے۔ پھر ایک سابق وزیرِاعظم نوازشریف ہی کیا، پچھلے 14 برسوں میں جنرل پرویز مشرف، میر ظفراللہ جمالی، شوکت عزیز، نگراں وزیرِاعظم میاں محمد سومرو، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے ادوارِ حکومت گزر گئے۔ افتخار چوہدری، تصدق حسین جیلانی، وقارالملک اور انور ظہیر جمالی جیسے قابل چیف جسٹس بھی اپنی مدتیں پوری کرگئے۔ جنرل کیانی اور جنرل راحیل شرف بھی کارنامے انجام دیتے ہوئے ریٹائر ہوئے۔ مگر کیا عافیہ پر ظلم، اس کی رہائی کسی کو کبھی یاد رہی؟
ڈاکٹر عافیہ کے اہلخانہ ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ ان کی رہائی کےلیے انتھک کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رہائی کی کوششوں کےلیے بنائے گئے پلیٹ فارم ’’عافیہ موومنٹ‘‘ کے تحت اہم سیاسی جماعتوں، طلبہ، ڈاکٹروں، صحافیوں، وکلاء اور بےشمار ہمدرد افراد نے دستِ تعاون بڑھایا۔ یوں عافیہ موومنٹ کے تحت عافیہ رہائی کےلیے منظم کوششیں باقاعدہ عمل میں آئیں۔ ملک بھر کی تمام ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز میں پروگرام کیے گئے۔ بیرونِ ملک سے آنے والے ہائی آئی آفیشل افراد/ وفود سے ملاقاتوں کا اہتمام کیا گیا۔ پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے عافیہ کے اِیشو کو اجاگر کیا گیا۔
اِس ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ احتجاجی مظاہرے اور اخباری بیانات اپنی جگہ یقیناََ اہم ہیں مگر ٹھوس، عملی اور قانونی اقدامات کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے نہیں کیے گئے۔ کیا ان سیاستدانوں کی اپنی کوئی بہن یا بیٹی ہوتی تو فقط جلسوں مظاہروں پر ہی بھروسہ کرکے بیٹھ رہتے؟
استاد جامع ام القریٰ شیخ ابو محمد عبداللہ المجازی فرماتے ہیں، ’’اگر کوئی مسلمان عورت، یہود و نصاریٰ یا غیر مسلموں کے ہاتھوں میں قید ہو تو تمام مسلمانوں پر اور مسلمانوں کی حکومتوں پر لازم ہے کہ اس کو مکمل طور پر آزاد کرائیں۔‘‘
وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی امریکہ میں موجود ہیں اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب فرما ہوئے۔ پاک امریکہ دوستی کی قیمتی مثالوں کے ساتھ تجدید فرمائی: ’’پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت چکائی ہے۔‘‘ (ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ مسلسل روا رکھی جانے والی دہشت گردی انہیں یاد نہیں آئی؟) انہوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی امن و سلامتی کےلیے کوششوں کو بھی سراہا۔ عالمی و اسلامی سربراہانِ مملکت سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اسی عمارت کے عین سامنے مین ہٹن کورٹ (Manhattan Court) کی وہ عمارت بھی ہے جہاں ان ہی دنوں میں سات سال قبل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جرمِ بےگناہی کی شرمناک 86 سالہ سزا سنائی گئی تھی… مگر اس مسلمان بیٹی کے مسلمان حکمران کو وہ یاد آئی نہ آ سکی!
اسلامی حکمرانوں ہی کی تاریخ ہے کہ ایک جری جوان محمد بن قاسم، ایک مسلمان لڑکی کو غیر مسلم ہندو راجہ کی قید سے آزاد کرانے کےلیے اپنی طاقت سمیت مدد کو آیا تو اللہ تعالیٰ نے انسانی ہمدردی کے اس عمل کی برکت سے پورے خطّے کو اسلام کی دولت سے سرفراز کردیا۔ کیا آج کے مسلمان حکمران محمد بن قاسم جیسے غیرت مند اور دلیر نہیں ہوسکتے کہ ڈاکٹر عافیہ اور قید میں پھنسی اس جیسی لاتعداد مظلوم عورتوں کو آزاد کراکے امت کے جسدِ واحد ہونے کا ثبوت دے سکیں؟
بشکریہ ایکسپرس بلاگ