ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
12.9 C
Srinagar

سونہ مرگ ڈائری :سربل :صوبہ کشمیر اور خطہ لداخ کی سرحدپر واقع میٹھے آلوﺅں کا گا ﺅںلیکن وجو د کو خطرہ لاحق

شوکت ساحل

سرینگر:: نالہ سندھ کے کنارے اور پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ’سربل ‘گاﺅں اپنے وجود کی جنگ لڑ رہا ہے ۔سربل وسطی ضلع گا ندر بل کا آخری گاﺅں کہلا یا جاتا ہے ،کیوں کہ یہ وادی کشمیر اورخطہ لداخ کی سرحد پر واقع ہے ۔اس گاﺅں کی اپنی ایک تاریخی اہمیت ہے اور یہ میٹھے آلو کی کاشتکاری کے لئے کافی مقبول ہے ۔21ویں صدی میں بھی سربل میں ہر طرح کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے اور مقامی لوگوں کو روزمرہ کی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔

تصویر:شوکت ساحل

وادی کشمیر کا سربل گائوں موسم سرما میں مہینوں تک ملک کے باقی حصوں سے کٹا رہتا ہے۔ اس گائوں میں اسکول، بجلی اور علاج وغیرہ جیسی بنیادی سہولتیں ابھی تک نہیں پہنچی ہیں اور اب بھی ہر سال چار ماہ تک برف باری سے ڈھکا رہتا ہے،جسکی وجہ سے یہاں کے مکینوں کو مجبوراً وقتی طور پر نقل مکانی بھی کرنی پڑتی ہے ۔ گائوں کو کسی نہ کسی مسئلے کا سامنا ہے۔ پانی، سڑک کی ابتر حالت، صحت، ناکافی بجلی ،تعلیمی اداروں اور راشن گھاٹ کی عدم موجودگی اس گاﺅں کا مقدر ہے ۔ سربل گائوں سطح سمندر سے8ہزار960فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔

تصویر:شوکت ساحل

ایشین میل سے بات کرتے ہوئے سربل کے ایک مقامی رہائشی ،مشتاق احمد شیخ نے کہا کہ’بھاری برف باری کی وجہ سے ہمارے گائوں کا ملک کے باقی حصوں سے رابطہ منقطع رہتا ہے اور ہمیں سردیوں میں اس جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنے پڑتی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ’اگر کوئی گائوں میں رہتا ہے تو اسے رابطہ کی کمی کی وجہ سے برف باری کے دوران سربل گائوں سے گگن گیر تک تقریباً25 کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔‘

ان کا مزید کہناتھا ’ اسکول ہے ،بچے کم ہے ،راشن اسٹور ہے ،لیکن راشن کی سپلائی ابھی تک نہیں کی گئی ،اعلیٰ حکام سے بھی رابطہ قائم کیا ،لیکن یقین دہانی پر یقین دہانی کرائی جاتی ہے ،راشن لانے کے لئے مکینوں کو نل گھاٹ جانا پڑتا ہے ،یہاں کوئی ہیلتھ سینٹر بھی نہیں ہے ،مریض کو سونہ مرگ یا سب ضلع اسپتال کنگن پہنچا نا پڑتا ہے ‘۔

تصویر:شوکت ساحل

ایک مقامی باشندے محمد سلطان لون نے کہا’ہمارا گائوں سونمرگ سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور سردیوں میں ہم نقل و حرکت نہیں کر سکتے کیونکہ تمام سڑکیں شدید برف باری کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ہم کہیں نہیں جا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ خاندان نومبر میں یہ جگہ چھوڑ کر تقریباً اگلے 5 مہینوں تک دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔‘ سربل کو’ ہندوستان کا آخری گائوں‘کہا جاتا ہے، یہ درحقیقت زوجیلا سے پہلے کشمیر کا آخری گائوں ہے جو لداخ جانے کا واحد زمینی رابطہ ہے۔یہ گائوں سری نگر سے110 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔

تصویر:شوکت ساحل

محمد سلطان لون کہتے ہیں کہ گاﺅں میں رہنے والوں کا ذریعہ معاش کاشتکاری پر انحصار کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہاں آلو ،مکئی اور ایک خاص گھاس(جے ای گھاس) کی کاشتکاری کی جاتی ہے ،یہی ہمارا ذریعہ معاش ہے ۔تاہم اب ہمیں جنگلی حیات کے سنگین خطرات کا سامنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ گاﺅں میں اکثر وبیشتر سیاہ ریچھ نمودار ہوتے ہیں ،جو اُنکی فصل کو تباہ وبرباد کرتے ہیں جبکہ شام ڈھلنے کے بعد کوئی بھی شخص گھر سے باہر قدم نہیں رکھتا ہے ،کیوں کہ یہاںخوف کا سایہ ہے ،کیوں کہ جنگلی حیات، پالتو جانوروں کو اپنا نوالہ بناتے ہیں ۔

سربل میں شینا طبقے کے لوگ آباد ہیں ،جو گریز سے دہائیوں قبل ہجرت کرکے یہاں پر آباد ہوئے ہیں ۔مشتاق احمد شیخ کہتے ہیں کہ اس گاﺅں میں 122کنبے رہتے ہیں ،جن میں سے صرف 40کنبے یہاں رہتے ہیں اور وہ بھی موسم سرما کے دوران دوسری جگہ پر منتقل ہوتے ہیں ۔اس گاﺅں میں ایک آنگن وارڈی سینٹر ہے ،جس میں دس سے بارہ بچوں نے اپنے ناموں کا اندراج کرایا ہے ۔

تصویر:شوکت ساحل

گاﺅں کی بزرگ خاتون فضلیت بیگم کہتی ہیں کہ مشکلات بہت ہیں ،طبی مراکز نہیں ہے ،راشن گھاٹ کا کہیں کوئی نام ونشان نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہاں رہنے والے لوگ موسم گرما کے پانچ ماہ گزارتے ہیں اور پھر ماہ اکتوبر ۔نومبرمیں یہاں سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ صحت مرکز نے ہونے کے سبب کئی افراد بے موت مر گئے اور اب لوگ آہستہ آہستہ اس گاﺅں سے رخصت ہورہے ہیں ،آج کے دور میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب زندگی گزار نا مشکل ہے ،میں بھی زندگی کے آخری پڑاﺅ پر ہوں۔

تصویر:شوکت ساحل

گاﺅں میں قدیم روایات کے آثار اب بھی نظر آتے ہیں ،یہاں کا رہن سہن قدیم روایتی ہے ۔گاﺅں میں ایک مسجد بھی آباد ہے اور یہاں سرکاری پتھر نصب کیا گیاہے ،جس پر گاﺅں کی ترقی کے لئے ترقیاتی پروجیکٹ سے متعلق تحریر درج ہے ،جو مٹ چکی ہے ۔ اس گاﺅں کو تاریخی اہمیت تو حاصل ہے ،لیکن اس کے وجود کو خطرہ ہے ،کیوں کہ نئی نسل اس گاﺅں میں رہنا پسند نہیں کرتی ،جسکی بنیادی وجہ بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ،خاص طور پر اسکول کی عدم دستیابی ۔

سیاحتی مقام سونہ مرگ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع یہ گاﺅں سیاحوں اور مقامی سیلانیوں کے لئے دلچسپی کا مرکز بھی رہا ہے اور اب بھی ہے ۔اس کی دلفریب رعنائیوں میں سیاح اور مقامی سیلانی کھو جاتے ہیں ،کیوں کہ صاف وشفاف آب وہوا ،گھنا جنگل اور اونچی پہاڑی اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتی ہے ۔

ایک مقامی سیلانی نیاز الہیٰ کہتے ہیں ’اس گاﺅں کو تاریخی لحاظ سے قومی ورثہ قرار دیا جانا چاہیے ، کیوں کہ یہ منفرد فن تعمیر کا نمو نہ ہے ،یہاں لکڑی مکان ،پن چکیاں،رہن سہن اور روایات کشمیر کی قدیم داستان کو بیان کرتی ہیں ،اس کو دکھانے سے سیاحت کو مزید فروغ ملے گا اور کشمیر کا آخری گاﺅں کہلانے والے سربل کی تاریخ بھی زندہ رہے گی ‘۔

Popular Categories

spot_imgspot_img