کشمیر کے چھاپہ مار

کشمیر کے چھاپہ مار

بھارتی فضائیہ
پوری جنگ کے دوران ایک عامل جس نے حالات کو دشمن کے حق میں کر دیا تھا، ان کی فضائی طاقت کا استعمال تھا۔ چونکہ ہمارے پاس کوئی ہوائی جہاز نہیں تھا اور نہ ہی ہوائی جہاز کو مارنے والی گنیں موجود تھیں، ایک طویل مدت سے بھارتی فضایہ پورے علاقے کے اوپر اپنی خوشی کے مطابق گزر سکتی تھی۔ اور کشمیر میں کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں تھی۔ ہمارے نقل و حمل کے ذرائع صرف رات کے وقت ہی حرکت کر سکتے تھے اور ہماری اکثر نقل و حرکت تاریکی والے اوقات تک محدود تھی۔ چناری میں جولائی 1948کے آغاز میں مجھے پہلی بار دو اینٹی ایئر کرافٹ گنیں، 40 یم ایم بوفورس موصول ہوئیں۔ ان بندوقوں سے صرف2پاﺅنڈ والے شل داغے گئے اور وہ بہت ہی کم فاصلے والے تھے ان کے وزنی ہونے کی بنا پر انہیں صرف میں روڑ قریب اور مرکزی علاقے کے آس پاس اور شاہراہ پر رکھا جا سکتا تھا۔جو کہ 3000 فٹ کی اونچائی پر تھے۔ سڑک کے دونوں کناروں والے پہاڑ 7000 اور 10000 فٹ کی اونچائی والے تھے اور نظروں کی حد بالکل محدود تھی۔ اس طرح گنیں عمومی طور پر صرف چند مختصر وقفوں کے لئے نظر آتی تھیں۔ اس طرح گنیں عمومی طور پر صرف چند مختصر وقفوں کے لئے نظر آتی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہم ان بندوقوں کے ذریعے ان میں ایک بھی ہوائی جہاز کو گرا نہیں سکے۔ میں نے اپنے حوصلے کو بلند رکھنے اور اچھی لڑائی کے جذبے کو بر قرار رکھنے کے لئے جو کہ جوابی کارروائی کرنے کےلئے ضروری تھا، اس لئے میں نے ہوائی جہاز کے لئے جال بچانے کا حربہ آزمایا ۔ یہ ان کارروائیوں میں سے جنہیں میں یہاں بیان کروں گا۔
اس کا مقصد آئندہ ہونے والے حملے کا تاثر پیدا کرنا۔ جس کے نتیجہ میں دشمن مخصوص علاقوں میں ہوائی جہاز بھیجنے پر مجبور ہو جائے گا۔ جہاں پر ہماری مشین گنیں اونچے مقامات پر نصب ہونگی ایک کو مارنا ہے۔ اس لئے میں نے آغاز کے طور پر درمیانی گن (توپ خانہ) کو چکوٹی منڈیر کے نیچے سب سے آگے والے مورچے پر نصب کیا ۔ درمیانی درجے کی گن کو جو کہ 90 پاﺅنڈ والے گولے کو داغتی ہے دونوں پہلوﺅں میں استعمال ہونے والی سب سے بھاری بندوق تھی۔ چکوٹی سے اوڑی کیمپ کی طرف اس کی زیادہ قریب ترین حد کے تحت آتی ہے۔ وہاں پر ابھی تک کوئی گولہ نہیں گرا تھا اور بھارتی اس بات کا شک نہیں کر سکے کہ ہم ایسا کر سکیں گے۔ اس لئے اوڑی کیمپ میں ان کے خیمے اور گاڑیاں ہمیشہ کھلے مقام پر رہتی تھی۔ میں نے اس کام کےلئے تقریباً 80 گولے محفوظ کر رکھے تھے اور توقع تھی کہ یہ بھاری نقصانات کر سکیں گے۔ ابتدائی حملے کے طور پر بمباری کی جانے والی تھی۔ اس کے بعد ہمارے جوانوں کے ذریعے کئے جانے والے زمینی حملے کا تاثر دینے کے لئے دیگر مخصوص فائرنگ اور نقل و حرکت کی سرگرمی کی جانی تھی۔ مجھے توقع تھی کہ اس کے واقع ہوتے ہی بھاری فوری طور پر فضائی امداد کے لئے آواز دیں گے۔ ہم کو ہوائی جہاز آنے کا راستہ معلوم ہوگا۔ اور یہاں تقریباً900 فٹ والے اونچے ترین مقامات پر بارہ مشین گنیں اور سولہ برین (چھوٹی مشین گنیں) ان کا استقبال کرنے کےلئے تیار تھیں۔ ایک خصوصی انتباہی سسٹم ان ہتھیاروں کو با خبر رکھنے والا تھا اور ہوائی جہازوں کے ان کے ہتھیاروں کی حدود میں آنے کی صورت میں بریگیڈ میں موجود ہر ایک پر جوابی حملہ کرنا تھا۔
بمباری کی ہدایات دینے کےلئے پانڈو پہاڑ کی 93000 فٹ اونچی چوٹی پر ایک توپ خانے کے افسر کو تعینات کیا گیا تھا۔ جہاں سے وہ اوڑی کیمپ کو دیکھ سکتا تھا۔ چنانچہ ہر چیز کو ترتیب دینے کے بعد ہم نے بادلوں سے پاک اور واضح وقت کا انتظار کیا تاکہ خراب موسم کی وجہ سے ہوائی جہازوں کے آنے کی پست ہمتی نہ ہو تقریباً دو پہر کے وقت آسمان مکمل طور پر صاف تھا اور بمباری شروع ہوئی۔ اس کا اثر اوڑی کیمپ پر اس قدر غیر متوقع انداز میں پڑا کہ اس کے نتیجہ میں شدید سراسیمگی پھیل گئی۔ اس کے فوری بعد دوسری سرگرمیاں انجام دی گئیں اور دشمن کے سنگل نے آواز دینا شروع کیا۔ ہمیں بہت زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔
تقریباً ایک گھنٹے میں ایک ہوائی جہاز آگیا۔ لیکن یہ زیادہ تر چناری میں واقع پرانے گن والے مورچے پر اڑا ،جہاں پر ہمارا جال موجود نہیں تھا۔ رات آنے تک کوئی فائدہ نہیں ملا۔ لیکن رات کے وقت دشمن غالباً اس بات پر پریشان ہونے ہوں گے کہ یہ اتنی ساری آوازیں کیسی ہیں ۔ اس لئے انہوں نے دوسرے دن صبح ایک ساتھ تین ہوائی جہاز بھیجے وہ پانڈو پر حملہ کرنے کے لئے آئے تھے جو کہ اس قسم کی سزاﺅں کے لئے ان کے پسندیدہ مقامات تھے ہمارے جوانوں کو قبل از وقت انتباہ موصول ہوا۔ پھانسہ اب بھی وہاں پر موجود تھا اور پورا بریگیڈ چوکس تھا اور ان کے انتظار میں تھا جیسے ہی ہوائی جہاز آیا انہوں نے دائرہ بنایا اور پانڈو میں یکے بعد دیگرے قل بزیاں کھائی۔ پہلے ہوائی جہاز کو مشن گنوں نے نشانہ بنایا۔ اس نے تیزی سے سمت بدلی اور چکوٹی سے پرے ٹوٹ کر نیچے گر گیا دوسرا ہوائی جہاز قریب سے اس کا تعاقب کر رہا تھا اور سے سے بھی دھواں آنا شروع ہوا ۔ جیسے ہی دو ہوائی جہاز نیچے گرنے لگے۔ ان میں سے ایک پائلٹ پیرا شوٹ کے ذریعے باہر نکل گیا اس کے بعد میں بذات خود نہیں دیکھ سکا۔ ایسا لگا کہ گویا دونوں ٹوٹ کر گر گئے ہوں اور دوسرا پائلٹ اپنی مشین گن کے ساتھ نیچے چلا گیا۔ میرا تاثر تھا کہ پہلا پائلٹ ہوائی جہاز سے بچ کر نکلا تھا۔ لیکن ہمارے اگلے محاذ کے فوجی دستے نے ایک مختلف کہانی بتائی۔ انہوں نے کہا کہ صرف پہلا ہوائی جہاز گرا تھا اور اس کا پائلٹ اس کے ساتھ نیچے چلا گیا تھا لیکن دوسرے پائلٹ نے یہ دیکھ کر جو کہ ایک سکھ تھا۔ صورت حال دیکھ کر جلد بازی میں رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یہ جانے بغیر کہ دوسرے آدمی کو ایسا کرنا چاہتے تھا۔ ہوائی جہاز سے چھلانگ لگائی تھی۔ یہ بنائی ہوئی کہانی ہو سکتی ہے۔ یہ یقینی طور پر سب سے زیادہ معروف کہانی بن گئی۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.